لاک ڈائون میں توسیع کی اطلاعات سے غریب اور متوسط طبقات کی تشویش میں اضافہ

   

کئی حقیقی غریب اور سید گھرانے امداد سے محروم، امداد سے زیادہ تشہیر کا رجحان افسوسناک
حیدرآباد۔ 9 اپریل (سیاست نیوز) کورونا وائرس کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ملک بھر میں جاری لاک ڈائون میں مزید توسیع کی اطلاعات سے غریب اور متوسط طبقات کی تشویش میں اضافہ ہوچکا ہے۔ غیر سرکاری اداروں اور مخیر افراد کی جانب سے لاک ڈائون کے آغاز کے بعد غذا، اناج اور سبزی کی مفت تقسیم کا سلسلہ شروع کیا گیا جو آج تک جاری ہے۔ لاک ڈائون میں امکانی توسیع اور رمضان المبارک کی آمد کے پیش نظر غریب خاندانوں کے مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے غیر سرکاری تنظیموں اور اہل خیر حضرات کو ابھی سے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ شہر کی غریب بستیوں میں عوامی نمائندوں، این جی اوز اور اہل خیر حضرات کی جانب سے غذا اور اجناس کی متواتر تقسیم کے باوجود آج بھی کئی ہزار ایسے خاندان موجود ہیں جو انتہائی مستحق ضرور ہیں لیکن عزت نفس کی خاطر وہ کسی کے آگے دست طلب دراز نہیں کرسکتے۔ ان کے علاوہ سید گھرانوں سے تعلق رکھنے والے غریب خاندانوں کی بھی بڑی تعداد ہے جو لاک ڈائون کے نتیجہ میں معاشی مسائل کا شکار ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امدادی کاموں میں مصروف افراد اپنی توجہ ان حقیقی مستحقین کی جانب مبذول کریں اور منظم حکمت عملی کے ذریعہ انہیں گھروں تک چاول، ترکاری اور اجناس کا انتظام کیا جائے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کئی مخیر افراد زکوٰۃ کی رقم سے امدادی کام انجام دے رہے ہیں۔ انہیں سید گھرانوں کے غریبوں کو اپنی ذاتی رقم سے مدد کرنی ہوگی کیوں کہ سیدوں کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی۔ شہر کے بیشتر علاقوں میں روزانہ تقسیم سے متعلق خبریں اور تصاویر اخبارات و سوشل میڈیا میں گشت کررہی ہیں لیکن آج بھی کئی علاقے ایسے ہیں جو توجہ کے منتظر ہیں۔ ان علاقوں میں موجود غریب اور متوسط خاندانوں نے امداد کے سلسلہ میں کسی سے اپیل نہیں کی اور نہ ہی این جی اوز کے فون نمرات کی اشاعت کے باوجود ان سے ربط قائم کیا۔ ایسے حقیقی مستحقین تک گھر گھر امداد پہنچانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ امداد کی تقسیم کے سلسلہ میں تشہیر اور شہرت پسندی میں اس کام کی نیک نیتی کو متاثر کردیا ہے۔ ہر ادارہ اور مخیر افراد شہرت کے لیے کام نہیں کررہے ہیں لیکن بعض ایسے ادارے اور افراد پائے گئے جو امداد تو معمولی نوعیت کی کررہے ہیں لیکن سوشل میڈیا میں اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جارہی ہے۔ حقیقی مستحق افراد کا خیال ہے کہ تشہیر سے تو بہتر غریبوں کی امداد نہ کریں کیوں کہ جب ثواب سے زیادہ شہرت کی نیت ہو تو پھر اجر ضائع ہوجائے گا۔ سیاسی قائدین کو غریبوں کی امداد کے سلسلہ میں ان کی عزت نفس کا بطور خاص خیال رکھنا چاہئے اور ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ وہ مستحق گھرانوں کا انتخاب کرتے ہوئے رات کی تاریکی میں ان تک اناج اور ضروری اشیاء پہنچا دیں تاکہ پڑوس کو بھی اس بات کی خبر نہ ہو کہ کسی نے پڑوسی کی مدد کی ہے۔ اب جب کہ رمضان المبارک قریب ہے، رضاکارانہ تنظیموں اور مخیر افراد کو ابھی سے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔