لاک ڈائون کے دوران دہلی کی مساجد بند، غریب مسلمانوں کی دردناک صورتحال

,

   

’’رمضان ایک نعمت بن کر آیا ہے، میرے بچے اب تین وقت کا کھانا نہیں پوچھتے‘‘ایک غریب ماہ کا احساس
نئی دہلی۔22 مئی (سیاست ڈاٹ کام) دہلی کی ایک گرہست خاتون شبانہ کا کہنا ہے کہ لاک ڈائون کے درمیان رمضان المبارک اس کے لیے ایک نعمت بن کر آیا ہے۔ وہ صرف اس لیے نہیں کہ یہ ایک مقدس مہینہ ہے یا اس ماہ کے اختتام پر عید آتی ہے بلکہ اس لیے کہ اب اس کے بچے دن میں تین وقت کا کھانا نہیں مانگ رہے ہیں کیوں کہ وہ بھی روزے رکھ رہے ہیں۔ یہ غمزدہ ماہ جنوبی دہلی میں ایک گھر میں جھاڑو دینے برتن دھونے کا جزوقتی کام کرتی ہے۔ اس کے یہ الفاظ اس علاقہ میں اس جیسی ہی ہزاروں معمر عورتوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں جو توسیع شدہ لاک ڈائون میں نوکری سے محروم ہونے کے بعد اپنے بچوں کو پالنے اور خاندان کی کفالت کی جدوجہد میں لگی ہیں۔ اس طرح یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں، رکشا رانوں، تعمیراتی مزدوروں اور ان کے افراد خاندان کی ایک کثیر تعداد اب افطار و سحر کے لیے قریب واقع مسجدوں میں فراہم کی جانے والی غذائی امداد پر انحصار کرتی رہی ہے۔

لیکن اس سال رمضان میں چونکہ لاک ڈائون کے سبب تمام مساجد بھی بند ہیں، ان مزدوروں و محنت کشوں کی بیروزگاری کا بحران بدترین نوعیت اختیار کرچکا ہے اور غربت سنگین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ رمضان اب قریب الختم ہے، کئی مرد خواتین اور بچے اس امید کے ساتھ روزے رکھ رہے ہیں وہ مشکل حالات سے ابھر آئیں گے اور ماہ صیام کو ایک نعمت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ کیوں کہ انہیں دن میں تین وقت کے کھانے کا انتظام کرنے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ 28 سالہ شبانہ نے کہا کہ ’’مشکل وقت میں رمضان میرے لیے نعمت بن کر آیا ہے کیوں کہ اب میرے بچے دن کے وقت کے کھانے کے لیے نہیں پوچھتے بلکہ وہ روزے رکھا کرتے ہیں۔ شبانہ کا خاوند جھارکھنڈ میں پھنسا ہوا ہے اور وہ دہلی کے قریب روکھلہ کے جوہری فارم محلہ کے ایک گھر میں کام کرتی ہے۔ اس پر ایک 12 سالہ بیٹے، 10 سالہ بیٹی اور چھوٹے بھائی کی کفالت کی ذمہ داری ہے۔ شبانہ نے کہا کہ ’’تین گھروں میں کام کیا کرتی تھی لیکن لاک ڈائون کے آغاز کے بعد تینوں گھر والوں نے اس کو کام پر نہ آنے کے لیے کہا ہے اور ان میں سے صرف ایک گھر کے مالک گھریلو کام نہ کرنے کے باوجود مجھے دو ماہ کی اجرت دی ہے۔