واجد خان
آج کل کسی بھی مضمون کی ابتداء اگر کووڈ۔ 19 سے کی جائے تو قارئین کا دہشت زدہ ہونا لازمی ہے۔ لہذا پچھلے چار پانچ ماہ کی روایت سے بغاوت کرتے ہوئے زیر نظر مضمون کا آغاز کووڈ۔ 19 سے نہیں کررہا ہوں گو کہ مضمون کا عنوان کووڈ ۔ 19 سے ہی مربوط ہے۔ راقم الحروف نے زندگی کی پچپن (55) بہاریں دیکھی ہیں اور اس دوران متعدد جنگیں، فرقہ وارانہ فسادات اور قدرتی آفات کی وجہ سے بلیک آوٹ اور کرفیو کے مناظر بھی دیکھے ہیں لیکن 22 مارچ 2020 کا جنتا کرفیو اپنی نوعیت کا ایسا پہلا مکمل لاک ڈاون تھا جس نے حقیقتاً پورے ملک میں ہر نوعیت کی سرگرمیوں پر جمود طاری کردیا تھا۔ وجہ کیا تھی؟ چین کے شہر ووہان سے نکلنے والے کورونا وائرس نے دنیا کے بیشتر (اسوقت 60) مالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور لوگ فوت ہوتے جارہے تھے۔ چین، امریکہ، اٹلی، اسپین اور ایران کو متاثر کرنے کے بعد جب اس وائرس نے ہندوستان کا رخ کیا تو اسے ابتداء میں تن آسانی سے لیا گیا بلکہ فوری میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ہندوستان کا دورہ بھی کیا جبکہ بالکل اسی وقت مشرقی دہلی میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا تھا اور ان کی املاک تباہ کی جارہی تھیں۔ کورونا وائرس کی روک تھام کے لئے جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا جارہا ہے وہ ہے سماجی فاصلے کو برقرار رکھنا تاہم دیکھا یہ گیا اور اب بھی دیکھا جارہا ہے کہ مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی اجتماعات کا انعقاد بھی کیا گیا جن میں منادر، مساجد اور پارلیمنٹ ہاوس سب شامل ہیں۔ حالیہ دنوں میں تو سابق وزیر اعظم دیوے گوڑہ کے پوتے کی شادی بھی انجام دی گئی۔ پارلیمنٹ کا سیشن بھی چلایا گیا تھا لیکن تبلیغی جماعت کو جس طرح نشانہ بنایا گیا اس پر اب تک بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔
دنیا کے بیشتر ماہرین اور دانشوروں کا ماننا ہے کہ جنتا کرفیو کے بعد 24 مارچ تا 31 مارچ جس پہلے لاک ڈاون کا اعلان کیا گیا اس کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ یہاں تک کہ بعدا ازاں یکم اپریل تا 15 اپریل لاک ڈاون میں توسیع کے اعلان نے بھی عوام کو مزید خوفزدہ کردیا تھا۔ اس دوران ملک بھر میں متاثرین اور فوت ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ ماسک اور سانیٹائزر کی طلب میں اچانک بیحد اضافہ ہوگیا۔ جو چیز صرف 10 یا 15 روپے میں دستیاب رہتی تھی اس کے لئے منہ مانگی رقم وصول کی جانے لگی۔ پولیس کی ذزہ داریوں میں اضافہ ہوگیا۔ جس وقت راقم الحروف ان سطور کو ضبط تحریر میں لارہا ہے۔ اس وقت 16 اپریل تا 3 مئی لاک ڈاون چل رہا ہے۔ ہوائی جہاز، ٹرین اور بس خدمات تو پہلے ہی بند ہیں اور لوگ اپنے اپنے مکانات میں مقید ہیں۔ اس وقت احساس ہو رہا ہے کہ پچھلے نو ماہ سے کشمیری شہری جس طرح اپنے اپنے مکانات میں بند ہیں، ان پر کیا گذرتی ہوگی؟!
انٹرنیٹ اور موبائل خدمات کی وجہ سے لوگ اپنے اپنے فون، ٹی وی یا کمپیوٹر پر اپنے من پسند پروگرام دیکھ کر وقت گذار رہے ہیں۔ یا اپنا دل بہلا رہے ہیں لیکن کشمیریوں کو تو انٹرنیٹ اور موبائل خدمات بھی میسر نہیں تھی۔ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے اور اجتماع سے گریز کرنے کی شرط نے سب سے زیادہ مسلمانوں کو متاثر کیا کیونکہ ہر مسجد میں پنجگانہ نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے اور جماعت ٹھہرنے سے قبل امام صاحب مصلیوں کو کندھے سے کندھا ملاکر صف بنانے کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ دو مصلیوں کے درمیان اگر جگہ چھوٹ جائے تو وہاں شیطان داخل ہو جاتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اگر مصلیوں کے درمیان ’’سماجی فاصلہ‘‘ برقرار رکھتے ہوئے صفیں بنائی جائیں تو کیا بے شمار شیطان ہماری صفوں میں نہیں گھس جائیں گے؟
خیر، اب تو حالات اتنے بگڑ گئے ہیں کہ نماز پنجگانہ تو دور کی بات ہے نماز جمعہ بھی مساجد میں ادا نہیں کی جارہی ہے۔ گوکہ پانچوں وقت اذان ضرور دی جارہی ہے اور اس کے فوری بعد موذن صاحب اعلان کرتے ہیں کہ نماز گھروں میں ہی ادا کی جائے۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے لیکن نماز تراویح کے بارے میں بھی ائمہ یہ اعلان کررہے ہیں کہ کووڈ ۔ 19 وباء کی وجہ سے مساجد میں نماز تراویح ’’انشاء اللہ‘‘ ادا نہیں کی جائے گی۔ رمضان المبارک میں جتنے اجتماعات ہوتے ہیں وہ کسی دیگر مذہب کے ماننے والوں میں نہیں ہوتے۔ چاہے وہ ہندو ہو، عیسائی ہو، سکھ ہو، بودھ ہو، پارسی ہو یا جین، سحری، نماز پنجگانہ، افطار کا اجتماع اور اس کے بعد تراویح کی نماز۔ اس کے علاوہ محلہ واری سطح پر ہر روز کسی نہ کسی علاقہ میں روزہ افطار اور طعام کا اہتمام آخر رمضان تک کیا جاتا ہے۔ جہاں لوگوں کا ہجوم جمع ہونا فطری بات ہے۔ رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی مسلمان شاپنگ شروع کردیتا ہے اور افطار کے بعد بازاروں کا ہجوم قابل دید ہوتا ہے جبکہ علمائے دین ہمیشہ سے ہی یہ تلقین اور نصیحت کرتے آئے ہیں کہ رمضان کی شاپنگ ماہ شعبان میں ہی کرلی جائے اور رمضان المبارک کی ہر ساعت عبادت میں گذاری جائے لیکن ہوتا ہے اس کے برعکس!