دوسری اور آخری قسط
واجد خان
لاک ڈاون نے عام زندگی کو جس طرح تہہ و بالا کردیا ہے اس کی تفصیلات میں اگر جاوں تو میں مضمون کو کئی اقساط میں مکمل کرنا پڑے گا۔ بچوں کی تعلیم کا جو نقصان ہوا ہے اسے ہم ناقابل تلافی نہیں کہہ سکتے کیونکہ میری حقیر رائے یہ ہے کہ اول تانہم جماعتوں کے تمام طلباء کو بغیر امتحانات اگلی جماعتوں میں ترقی (پاس) دی گئی ہے۔ جہاں تک اونچی جماعتوں تک ترقی حاصل کرنے کا سوال ہے تو اس سے طلباء نے استفادہ کرلیا لیکن اپنی متعلقہ جماعتوں کے نصاب سے وہ مکمل استفادہ نہیں کرسکے۔ ہر جماعت میں ہر مضمون کے کچھ خصوصی ابواب ہوتے ہیں جو بچوں کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں۔ اور غالباً وہ اہم ابواب ہی ان کی زندگی کا حصہ نہیں بن سکے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ اسکولس میں وباء کے تیزی سے پھیلاؤ اور لاک ڈاون کو قبل از وقت محسوس کرتے ہوئے نصاب کی عاجلانہ تکمیل کرلی گئی ہو لیکن ایسی تکمیل محض خانہ پری ہی کہلائے گی۔ جہاں استاذ عرق ریزی نہ کرے اور صرف نصاب کی تکمیل کا ضابطہ پورا کردے۔ راشن اور دیگر اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے لئے حکومت کے ارادے تو نیک نظر آتے ہیں لیکن یاد رکھئے ۔ یہ مہربانی صرف وباء کے ختم ہونے تک ہے اور اس بات کے لئے بھی خبردار کردو کہ لاک ڈاون مکمل طور پر ختم ہونے کے بعد بس، ٹرین، ہوائی جہاز اور دیگر ذرائع آمد و رفت اور حمل و نقل کے کرایوں میں بے تحاشہ اضافہ ہونے والا ہے۔ بہ الفاظ دیگر اس وقت پر جو مہربانیاں کی جارہی ہیں وہ بعد از خاتمہ لاک ڈاون سود سمیت وصول کرلی جائیں گی۔ کوئی بھی طالبہ اگر بغیر امتحان کے اول سے دوم، دوم سے سوم، سوم سے چہارم، چہارم سے پنجم، پنجم سے ششم، ششم سے ہفتم، ہفتم سے ہشتم اور ہشتم سے نہم ترقی پا لیتا ہے؍ پالیتی ہے تو اس کے باوجود جو جماعت سے اسے اگلی جماعت تک ترقی دی گئی ہے۔ اس سابقہ جماعت کا خلاء ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ دوسری طرف بات اگر پولیس کی کریں تو وہ اپنے فرائض نبھانے میں حدود سے تجاوز بھی کرتی نظر آرہی ہے۔ کئی شہروں میں ایسے واقعات رونما ہوئے جہاں پولیس نے جائز وجوہات کی بنیاد پر باہر آنے والے لوگوں کو بھی بری طرح پیٹا۔ اگر ہماری ریاست تلنگانہ کا ہی ذکر کیا جائے تو یہاں ضبط شدہ گاڑیوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ کیا لاک ڈاون کے دوران یہ لاکھوں افراد یونہی بیکار بے وجہ سڑکوں پر گھوم رہے تھے؟ تصویر کا ایک دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ کورونا وائرس کو Biological war بھی قرار دیا جارہا ہے۔ چین کے شہر ووہان جہاں سے یہ وباء پھوٹ پڑی تھی، تادم تحریر حالات معمول پر آچکے ہیں۔ آخر ایسی کونسی جادو کی چھڑی تھی جسے پھیرتے ہی حالات معمول پر آگئے؟ چین کا پڑوسی ملک تائیوان کووڈ۔ 19 وباء سے بالکل محفوظ ہے۔ اسی سلسلہ میں متعدد افریقی ممالک کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔ اب چلتے ہیں ایک ایسے مفروضہ کی جانب جس کے متعلق طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سردی، کھانسی اور زکام کی علامتیں ہر انسان میں پائی جاتی ہیں اور ان کے مطابق اگر سردی کی وجہ سے ناک بہنے بھی لگے تو اس کا کوئی خاص علاج کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ ایک ایسی جسمانی کیفیت ہوتی ہے جس سے ہماری Immunity (قوت مدافعت) میں اضافہ ہوتا ہے۔ لاک ڈاون کے دوران بھی ایسی غذاؤں کا استعمال کیا جائے جو ہماری قوت مدافعت کو بڑھاتی ہیں تو بہتر ہوگا۔ بہرحال بات ہو رہی سردی زکام کی ۔ راقم الحروف نے بھی اپنی ابتدائی جماعتوں میں سائنس کے مضمون میں کورونا وائرس کے بارے میں پڑھا تھا لیکن اسوقت وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ یہ وائرس ساری دنیا میں قیامت صغریٰ برپا کردے گا۔ اگر آج بھی ہم سب اپنا ٹسٹ کروائیں تو کورونا مثبت نتائج ہی سامنے آئیں گے۔ تو کیا اس سے ہم خوفزدہ ہو جائیں؟ ہرگز نہیں! ہمیں اپنی قوت مدافعت کو مستحکم رکنا چاہئے تاکہ کورونا ہم پر حاوی نہ ہوسکے۔ لاک ڈاون ایک ایسا سخت فیصلہ ہے جس کے نفاذ سے قبل اس کے منفی اور مثبت نتائج پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ سگریٹ اور شراب اچانک بند ہو جانے سے ان کے عادی افراد نیم پاگل ہوگئے ہیں۔ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں سگریٹ اور شراب نوشی کی تائید کررہا ہوں۔ جس طرح میڈیکل، بینکس، سبزی، ترکاریاں، گوشت اور دیگر کی فروخت کے لئے کچھ نرمی دی گئی ہے۔ اسی طرح شراب کی دوکانات کو بھی روزانہ دو گھنٹے کھولنے کی اجازت دی جانی چاہئے تھی۔ اگر عادی شرابیوں کو شراب نہ ملے تو وہ عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگتے ہیں اور کبھی کبھی بھیانک جرائم کا ارتکاب بھی ہو جاتا ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ وزراء اور دیگر شراب پینے والے اعلیٰ عہدہ داروں تک ان کا کوٹہ بغیر کسی رکاوٹ کے سربراہ کیا جارہا ہوگا! ساری مصیبت اور سارے قوانین صرف عوام کے لئے ہیں۔ اب مساجد میں وہ رونقیں نہیں ہوں گی جو رمضان کا طرۂ امتیاز ہیں۔ لوگ اب افطار کرتے بھی نظر نہیں آئیں گے۔ نماز تراویح جو رمضان المبارک کی شناخت ہے، وہ بھی اب گھروں میں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چونکہ کورونا وائرس کی وباء کے بعد راقم الحروف کو ہر شعبہ کا احاطہ کرنا ہے اور اپنی بات اپنے قارئین تک پہنچانی ہے۔