لاک ڈاون میں تبلیغی جماعت کے افراد کو پناہ دینا جرم کیسے؟ دہلی ہائی کورٹ میں پولیس کی سرزنش

   

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے کل دہلی پولیس سے پوچھا کہ گزشتہ سال لاک ڈاون کے دوران تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شامل ہونے کے لئے آنے والے غیر ملکی شہریوں کو پناہ دے کر ہندوستانی شہریوں نے کیا جرم کیا تھا؟ ساتھ ہی عدالت نے رہنما ہدایات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کسی شخص کیلئے کسی خصوصی مقام پر پابندی عائد نہیں کی تھی۔جسٹس مکتا گپتا نے تبلیغی جماعت کے جلسہ میں شامل ہونے کیلئے آئے غیر ملکی لوگوں کو پناہ دینے والے ان شہریوں کے خلاف درج ایف آئی آرز کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرنے والی عرضی پر سماعت کی۔ دریں اثنا، انہوں نے کہا کورونا وبا کی وجہ سے نافذ ہونے والے لاک ڈاون کے سبب جماعتیوں نے پناہ مانگی اور ان پر نقل و حمل کی پابندی کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کا کوئی الزام نہیں ہے۔جسٹس مکتا نے کہا کہ فوری لاک ڈاون نافذ ہونے پر کوئی کہاں جا سکتا ہے؟ یہاں جرم کیا ہوا ہے؟ کیا مدھیہ پردیش کے شہریوں کو دہلی میں کسی مسجد، مندر یا گرودوارے میں ٹھہرنے پر کوئی پابندی عائد تھی؟ وہ اپنی مرضی کے مطابق کہیں بھی ٹھہر سکتے ہیں۔ کیا اس نوعت کا کوئی نوٹس تھا کہ جو بھی ان کے ساتھ رہ رہا تھا اسے ہر کوئی باہر نکال دے گا۔
جسٹس مکتا نے کہا کہ جب جگہ تبدیل کرنے کا سوال نہیں تو خلاف ورزی کہاں ہوئی؟ یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ باہر گئے تھے اور انہوں نے لاک ڈاون رہنما ہدایات کی خلاف ورزی کی تھی، لیکن جب لاک ڈاون نافذ ہوا تو کسی کے رہنے پر کوئی روک نہیں تھی۔ عدالت نے دہلی پولیس سے اس معاملہ میں جواب طلب کیا ہے۔

خیال رہے کہ کورونا وبا کے سبب ہندوستان میں گزشتہ سال مارچ میں اچانک لاک ڈاون نافذ ہوا تھا۔ اسی دوران دہلی میں تبلیغی جماعت کا جلسہ منعقد ہوا تھا۔ اس میں دنیا کے کئی ممالک کے افراد نے شرکت کی تھی۔ لاک ڈاون کی وجہ سے یہ لوگ باہر نہیں جا سکے۔ ایسے حالات میں مختلف مساجد اور انتظامی کمیٹیوں کے ارکان نے ان غیر ملکی لوگوں کو اپنے گھروں میں پناہ دی تھی۔ پولیس نے ان لوگوں کے خلاف بھی مقدمے درج کر لئے تھے۔ اب ایسے لوگوں نے ایف آئی آر منسوخ کرنے کے لئے عرضیاں داخل کی ہیں۔