لاک ڈاؤن سے طلبہ پر منفی اثرات، گھروں کے حد تک محدود

   

Ferty9 Clinic

نفسیاتی طور پر تناؤ، تعلیم، کھیل کود، رشتہ داری اور دیگر مصروفیات سے محروم
حیدرآباد۔ 28 جون (سیاست نیوز) لاک ڈاؤن کی وجہ سے طلبہ 108 دنوں سے گھروں تک محدود ہوگئے ہیں۔ آن لائن کلاسیس، فون اور ٹیلی ویژن کے عادی ہوگئے ہیں۔ ان کی روزمرہ کی عادات و اطوار میں کافی تبدیلیاں دیکھی جارہی ہیں۔ کھیل کود، کام کاج نہ ہونے، کھانے پینے، سونے اُٹھنے کے اوقات تبدیل ہونے سے اس کا اثر ان کی جسمانی نشوونما پر بھی پڑ رہا ہے۔ وہ غم و غصہ اور ذہنی دباؤ کا شکار ہورہے ہیں۔ بچوں کی ان تبدیلیوں کے ان کے والدین اور سرپرست محسوس کررہے ہیں۔ لاک ڈاؤن نے طلبہ کی ذہنوں پر بڑا اثر ڈالا ہے اور ان کی عادتیں پوری طرح تبدیل ہوگئی ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران گھروں سے باہر قدم رکھنے پر کورونا کا شکار ہونے کے ڈر سے تمام طلبہ گھروں تک محدود ہوگئے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد کورونا کے معاملات میں دو تین گنا اضافہ ہونے پر گھروں سے بچوں کو باہر نکلنے کی گنجائش ختم ہوگئی، جس کی وجہ سے طلبہ تحدیدات کے درمیان زندگی گزارنے کیلئے مجبور ہوگئے ہیں۔ دوستوں سے ملاقات نہ ہونے کے ساتھ میں مل کر کھیل کود کی سرگرمیاں ختم ہوجانے کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر بچے برہمی کا اظہار کررہے ہیں۔ بچوں میں اچانک رونما ہونے والی ان تبدیلیوں کو والدین محسوس کررہے ہیں۔ مگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ بھی کچھ نہیں کررہے ہیں اور حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے خاموش ہورہے ہیں۔ طلبہ کی تبدیلیوں کی کئی وجوہات ہیں جن میں کھیل کود کی سرگرمیاں زندگی کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے جسمانی نشوونما پر بہت زیادہ اثر پڑ گیا ہے۔ لاک ڈاؤن سے قبل ہر دن طلبہ گھر اور اسکول میں کچھ وقت کھیل کود کیلئے نکال لیا کرتے تھے۔ کھیل کود کی وجہ سے طلبہ کے جسم میں ذہنی تناؤ کو گھٹانے کیلئے انڈار فین جیسے ہارمونس کی اجرائی ہوتی ہیں۔ یہ جسم کو دباؤ سے دور رکھتے ہوئے ذہنی سکون فراہم کرتے ہیں۔ یہی نہیں کھیل کود سے جسم پر دباؤ کی وجہ سے اچھی نیند بھی آتی ہے، تاہم اب یہ صورتحال نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کی لائف اسٹائل پوری طرح تبدیل ہوگئی ہے۔ وہ کب سو رہے ہیں، کب اُٹھ رہے ہیں اور کب کھا رہے ہیں، انہیں اس کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ بلاترتیب طرز زندگی کی وجہ سے طلبہ پر چھوٹی بات پر ناراض ہورہے ہیں۔ 24 گھنٹے گھروں تک محدود رہنے کی وجہ سے ان کا وزن بھی بڑ رہا ہے اور وہ موٹاپا کا شکار ہورہے ہیں۔ ماہر نفسیات ویریندر نے لاک ڈاؤن کے دوران طلبہ میں پائی جانے والی تبدیلیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک میں بیشتر عوام غریب اور متوسط خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں زیادہ افراد سنگل بیڈروم گھروں میں رہتے ہیں، لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں سے باہر نکلنے پر زندگی کو خطرہ محسوس کرتے ہوئے ماں باپ نے بچوں کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی بچے بھی ان مجبوریوں کو محسوس کیا ہے، لیکن کبھی کبھی وہ جھنجھلاہٹ اور غصہ کا شکار بھی ہوئے ہیں، اس کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ ماہر نفسیات نے والدین اور سرپرستوں کو مشورہ دیا کہ وہ بچوں کی حالت پر غور کریں، انہیں پیار سے سمجھاتے ہوئے ان کے غصہ کو نظرانداز کریں۔ ورنہ حالات بے قابو ہوکر رشتوں میں دراڑ بھی پڑ سکتی ہے۔ ماہر نفسیات نے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ گھروں میں بچوں کو ورزش، یوگا، کی طرف راغب کریں۔ ہر دن کم از کم 45 منٹ تک بچوں کو ورک آؤٹ کرنے کی ترغیب دیں۔ ورک فرم ہوم کرنے والے ماں باپ اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ انداز میں وقت گذاریں۔ انہیں اسلامی اور تاریخی معلومات فراہم کریں۔ لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس کی وجہ سے ان میں جو ڈر و خوف ہے اس کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ آن لائن کلاسیس ختم ہونے کے بعد انہیں بار بار پڑھنے کی ہدایت دینے کی کوشش نہ کریں۔ اگر کوئی سبجیکٹ بچوں کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو بچوں سے اس پر ہمدردی سے تبادلہ خیال کریں اور اسکولس ٹیچرس سے طلبہ کی بات کرائیں۔