وینکٹ پارسا
بلبل ہند اور ملکہ ترنم لتا منگیشکر 92 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ اپنی میٹھی و سریلی آواز اور اپنی زندگی سے جڑی یادگار باتیں چھوڑ گئیں۔ بے شک قدرت نے لتا منگیشکر کو وہ آواز عطا کی تھی جو قلوب و اذہان کو چھولیتی تھی جس سے بے چین دلوں کو سکون و قرار حاصل ہوتا۔ شہنشاہ جذبات دلیپ کمار نے لتا منگیشکر کی جادوئی شخصیت کا جس انداز میں تعارف کروایا تھا، شاید لتا جی کیلئے اس سے بڑھ کر کوئی خراج تحسین اور خراج عقیدت نہیں ہے۔ انہوں نے ایک موسیقی ریز پروگرام میں لتا منگیشکر کا تعارف کرواتے ہوئے انہیں دعوتِ نغمہ کچھ یوں دیا تھا:
’’لتا منگیشکر کی آواز قدرت کی تخلیق کا ایک کرشمہ ہے‘‘۔ دلیپ کمار کے اس ریمارکس کو یقینا لتا منگیشکر کی تعریف میں ادا کئے گئے اب تک کے سب سے بہترین الفاظ کہا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے یہ بتایا تھا کہ لتا منگیشکر اپنی سریلی آواز کے ذریعہ نہ صرف ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش بلکہ ساری دنیا میں ایک منفرد پہچان اور منفرد شناخت رکھتی ہیں۔ اس بارے میں خود لتا جی نے کہا تھا: ’’میری آواز ہی پہچان ہے، گر یاد رہے‘‘۔ لتا منگیشکر ناقابل تسخیر تھیں، کوئی ان کے مقابل کی گلوکارہ نہیں، کم عمری میں ہی لتا منگیشکر نے گلوکاری شروع کردی تھی چنانچہ لتا منگیشکر کا حب الوطنی پر مبنی ایک نغمہ سن کر ہمارے ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا: ’’اس لڑکی نے میری آنکھوں میں آنسو لادیئے‘‘ یعنی اس لڑکی کی نغمہ سرائی نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ دراصل وہ نغمہ، ممتاز نغمہ ثابت ہوا جسے پردیپ نے لکھا تھا جس کے بول آج بھی سننے والوں کو رُلا دیتے ہیں۔ اس نغمہ کے بول کچھ اس طرح تھے: ’’ائے میری وطن کے لوگو، ذرا آنکھ میں بھرلو پانی، جو شہید ہوئے ہیں، ان کی ذرا یاد کرو قربانی‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ جب پنڈت نہرو نے لتا سے یہ نغمہ سنا تو فوراً ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’’بیٹا! تم نے تو آج مجھے رُلا دیا‘‘ اس وقت پنڈت نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی ان کے قریب ٹھہری ہوئی تھیں۔ پنڈت جی نے لتا کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیتے ہوئے بھی کہا تھا کہ گھر کب آرہی ہو۔ دراصل وزیراعظم پنڈت نہرو نے لتاب جی کو وزیراعظم کی تین مورتی قیام گاہ پر چائے پر مدعو کیا تھا جو لتا منگشیکر کیلئے ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔ پنڈت نہرو نے 1962ء کی ہند۔ چین جنگ کو ایک بڑی غداری قرار دیا تھا اور اس جنگ سے انہیں جو صدمہ پہنچا تھا اس سے وہ کبھی باہر نہیں نکل سکے۔ 27 مئی 1964ء میں اپنی موت تک وہ اس صدمہ سے دوچار رہے۔ آپ کو بتا دوں کہ لتا منگیشکر نے ’’ائے میرے وطن کے لوگو! ذرا آنکھ میں بھرلو پانی‘‘ جیسا جذباتی گانا 27 جنوری 1963ء کو پنڈت نہرو کی موجودگی میں گایا اور گانا سنتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ یہ تھا لتا جی کا جادو جو اپنی آواز کے ذریعہ وہ لوگوں پر کرتی تھیں۔ 1974ء میں لندن کے رائل البرٹ ہال میں لتا منگیشکر کو نغمہ سرا ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ پہلی ہندوستانی گلوکارہ تھیں جس میں یہ اعزاز حاصل رہا۔ اس موقع پر نرگس نے انتہائی پیارے انداز میں اور شائستہ لب و لہجہ میں لتا منگیشکر کو ڈائس پر مدعو کیا۔ انہوں نے کہا تھا ’’معزز خواتین و حضرات لتا کسی تعریف کی نہیں، پرستش کے قابل ہیں، ان کی آواز سننے کے بعد کچھ ایسا عالم طاری ہوجاتا ہے جسے بیان کرنا مشکل ہے۔ انہیں سمجھئے، جیسے کسی درگاہ یا مندر میں جائیں تو وہاں پہنچ کر سر عبادت کیلئے خودبخود جھک جاتا ہے اور آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہتے ہیں، لتا کتنا چھوٹا نام ہے، لیکن ان کی شخصیت بہت اونچی ہے، ہمالیہ سے بھی اونچی، پھر ایک مرتبہ لتا منگیشکر سے درخواست کرتی ہوں، وہ ایک بار پھر اسٹیج پر آئیں اور یہ گانا سنائیں: ’’ساتھی رے تجھ بن جیا اُداس رے، یہ کیسی ان بجھ پیاس رے آجا‘‘ ملکہ ترنم نور جہاں نے لتا منگیشکر کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ لتاجی مجھے مظاہرہ قدرت سمجھتی ہیں میں کہتی ہوں۔ یہ ان کی سادگی ہے، لتا تو لتا ہے۔ ان کی طرح کی گلوکارہ اب تک پیدا نہیں ہوئی۔ لتا منگیشکرچھ دہوں سے زیادہ عرصہ تک ایک غیرمعمولی گلوکارہ کی حیثیت سے فن موسیقی کی دنیا میں بڑی تیزی سے اپنے قدم آگے بڑھائے، وہ اپنے دور کی ایک افسانوی شخصیت تھیں۔لتا منگیشکر نے اپنی ساری زندگی میں کبھی کسی کی نقل نہیں کی بلکہ اپنی جداگانہ آواز اور منفرد انداز کے ذریعہ دنیائے موسیقی کے شائقین کے دل جیتے۔ نہرو کا دور یقینا ہندی سنیما کا ایک سنہری دور تھا جہاں فضاء میں امیدوں کے چراغ روشن رہا کرتے تھے۔ لوگ اپنی آنکھوں میں حسین خواب سجائے رکھتے تھے۔ خواہشات و تمناؤں کی میٹھی آوازیں گانوں میں رس گھولا کرتی تھیں۔ ماحول امید و خوشی کی خوشبوؤں سے معطر رہا کرتا تھا۔ شعراء، فلمی نغمہ نگار بن گئے تھے۔ مختلف قسم کے میوزک ڈائریکٹر منظر عام پر آئے تھے اور یہ ایسے ڈائریکٹرس تھے جن کے انداز بالکل الگ الگ اور اپنے آپ میں ایک مثال ہوا کرتے تھے، جیسے نوشاد، شنکر جئے کشن ، لکشمی کانت پیارے لال ، کلیان جی۔ آنند جی، روشن اور روی ان تمام کا انداز یا اسٹائل بالکل جداگانہ ہوا کرتا تھا۔ وہ ایسا دور تھا جہاں ہندی فلموں کی موسیقی نئی بلندیوں پر پہنچ گئی تھی۔ اس دور میں لتا منگیشکر نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور نقطہ عروج پر پہنچ گئی تھیں، جہاں ان کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں تھا، ان سے مقابلہ کرنے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ لتا اس لئے ناقابل تسخیر رہی کیونکہ ان کی آواز کا کوئی جواب نہیں تھا۔ 36 سے زائد ہندوستانی زبانوں میں 30 ہزار نغمے ریکارڈ کروائے، خوبصورت اور دلوں میں اُترنے والی آواز کیلئے لتا منگیشکر کی ’’بلبل ہند‘‘ کی حیثیت سے تعریف و ستائش کی گئی تھی۔ 1966ء میں اپنے کیریئر کے نقطہ عروج پر لتا جی فلم فیر ایوارڈس قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا جس کا واحد مقصد ہندی سنیما میں نئے گلوکاروں کو آگے بڑھانا تھا۔ ہندی سنیما میں ہر ہدایت کار و فلمساز اپنی فلموں میں صرف لتا منگیشکر کی آواز چاہتا تھا۔ ہر کسی کی خواہش ہوتی کہ لتا جی اس کی فلم میں اپنی آواز کا جادو جگائیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہندی سنیما میں اوشا کھنہ واحد خاتون موسیقار تھیں اور گانے بھی گایا کرتی تھیں لیکن لتاجی نے ان کی ہدایت میں بھی گانے گائے۔ اوشا کھنہ کی موسیقی میں لتا منگیشکر نے جو بھی گانے گائے وہ سدا بہار نغمے ثابت ہوئے مثلاً ماجھی میری قسمت کے، جی چاہے جہاں لے چل سدا بہار نغمہ ثابت ہوا۔ یہ فلم ہم ہندوستانی کی شناخت بن گیا تھا۔ یہ نغمہ افسانوی اداکارہ آشا پاریکھ پر فلمایا کیا تھا۔ ایسے کئی موقع دیکھنے کو ملے جب فلموں کی کامیابی صرف اور صرف گانوں کے باعث یقین بنی۔ بے شمار ایسی فلمیں ہیں جن کے نتیجہ میں باکس آفس پر فلمیں کامیاب ہوئیں۔ لتاجی کی آواز کو خدا کا تحفہ اس کی نعمت سمجھا جاتا تھا۔ وہ دراصل لتا منگیشکر کا جادو ہی تھا۔ ایک اور اہم بات ہے کہ آشا بھونسلے اور ان کی چھوٹی بہنوں اوشا، مینا نے بھی گلوکاری کے شعبہ میں طویل عرصہ تک اپنی موجودگی کا احساس دلایا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ لتا منگیشکر اور ان کی بہنوں نے صرف اور صرف اپنے Talent کے ذریعہ اپنا مقام بنایا حالانکہ بالی ووڈ ایک کمرشیل انڈسٹری ہے۔ لتا منگیشکر نے ہمیشہ آشا بھوسلے اور اپنی چھوٹی بہنوں کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ایک مرتبہ آشا بھونسلے کسی گانے کو لے کر کافی پریشان اور مایوس تھیں۔ اس گانے کی ریکارڈنگ سے قبل لتا نے آشا سے کہا تم منگیشکر پہلے اور بھونسلے بعد میں ہو اور منگیشکروں کے نغموں کو لوگ پسند کرتے ہیں۔ ان سے پیار کرتے ہیں، گاتے وقت پورے اعتماد کے ساتھ اور نارمل انداز میں گاؤ۔ چنانچہ آشا ، بھونسلے نے ویسے ہی گایا جیسے لتا نے مشورہ دیا تھا اور پھر وہ نغمہ ہٹ ہوگیا۔ بالی ووڈ میں بے شمار گلوکار تھے لیکن لتا کو جو عوامی مقبولیت اور چاہت ملی وہ کسی اور کے حصہ میں نہیں آئی۔ لتا تمام گلوکاروں سے اچھے تعلقات رکھتی تھی حالانکہ اس دور میں مسابقت بھی بہت زیادہ تھی۔ ہاں محمد رفیع صاحب کے ساتھ ان کی عارضی غلط فہمی رہی جو بہت جلد دور ہوگئی۔ لتا نے ایک مرتبہ کہا تھا ’’ہمارے میں ایک چیز مشترکہ ہے، ہم تمام گانا پسند کرتے ہیں، ترنم کی تلاش میں رہتے ہیں۔ لتا کی آواز نے ہر زبان کے موسیقی کے شائقین کو متاثر کیا۔ لتا منگیشکر اُردو نہیں جانتی تھیں لیکن انہوں نے جس طرح خوبصورت انداز میں غزلیں گائیں اس کا جواب نہیں مہاراشٹرا سے تعلق رکھنے کے باوجود انہوں نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ گانوں میں مرہٹی تلفظ کی جھلک بھی نہ آئے۔ خاص طور پر وہ اُردو الفاظ کے تلفظ کی ادائیگی پر خصوصی توجہ مرکوز کیا کرتی تھیں جس کے نتیجہ میں ہی وہ مقبولیت کی بلندیوں پر رہی۔ ان کی دل سے نکلنے والی آواز سننے والوں کے دلوں میں اُتر جایا کرتی تھی۔ لتا منگیشکر نور جہاں، ثریا، شمشاد بیگم اور مبارک بیگم کے نقطہ عروج کے حصہ میں فلم صنعت میں اپنی آواز کا جادو بکھرا۔ اسی طرح اس دور میں گیتا دت، سومن ہیماڈے کلیان پور، سدھا ملہوترہ، اوشا تموٹھی، کرشنا، کالے کمال بروت (جنہوں نے فلم ’’ہمالیہ کی گود‘‘ میں گایا تھا) حیدرآباد کی شاردا (دیکھو میرا دل مچل گیا)، بنگلہ دیش کی رونا لیلیٰ ، جئے رام ، ہیم لتا، انورادھا پوڈوال،کی موجودگی کے باوجود آگے رہیں مغل اعظم میں تو انہوں نے ترانہ محبت ، ’’پیار کیا تو ڈرنا کیا ‘‘گا کر خود کو یادگار بنادیا۔ شکیل بدایونی کی شاعری ان کے لفظوں کو ایسا لگتا تھا کہ لتا نے اپنی آواز کے ذریعہ (زندہ جاوید بنادیا) روشن اور مدن موہن کی موسیقی میں لتا نے بے شمار یادگار غزلیں بھی گائیں، خود ان کی غزلوں پر ثریا حیران رہ جاتی تھیں۔ 1942ء میں لتا نے اپنے والد دیناناتھ منگیشکر کے دیہانت کے بعد صرف 13 سال کی عمر میں گانا شروع کیا۔ 1945ء میں لتا ممبئی آئیں اور پھر ان کے کامیاب سفر کا سلسلہ شروع ہوا۔