لندن ۔ 5 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) منگل 3 ستمبر کو ایک پرتشدد احتجاج ہندوستانی ہائی کمیشن لندن کے روبرو کیا گیا جس میں عمارت کے شیشے توڑ دیئے گئے۔ احتجاجیوں نے اسے ’’کشمیر کی آزادی کا جلوس‘‘ قرار دیا۔ لندن کے میئر صادق خان نے ٹوئیٹر پر اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’’ناقابل قبول تشدد‘‘ قرار دیا۔ ان کی یہ تحریر سماجی ذرائع ابلاغ پر اپریل 2018ء سے شائع کی جارہی ہے جبکہ ’’یوروپی یونین چھوڑدو‘‘ گروپ نے اسے اپنی بریکسٹ مہم کے ایک حصہ کے طور پر شائع کیا تھا۔ تاہم اس تحریر میں جو دعوے کئے گئے ہیں وہ غلط ثابت ہوئے۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نے ان فہرستوں میں سے ایک پر توجہ مرکوز کی جس میں لندن کی 477 مساجد کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ ہمیں پتہ چلا کہ فہرست میں جو مساجد شامل ہیں ان میں سے اکثر نماز گاہیں ہیں۔ کئی مذاہب کے کمرے ایک عوامی عمارت یا جم یا یونیورسٹیوں اور ہیتھرو ایرپورٹ پر واقع ہے۔ کئی کرائے کے ہال تھے اور ایک قطر کے سفارتخانہ کا طبی دفتر تھا چنانچہ یہ دعویٰ کہ لندن میں 460 مساجد ہیں جو صادق خان کی مدد سے تعمیر کی گئی ہیں، بالکل بے بنیاد ہے حالانکہ یہ اب بھی نسبتاً نایاب بات ہے کہ امریکہ میں ان چرچوں کو دوبارہ استعمال کرنا ایک مقبول عام طریقہ کار دیگر ممالک جیسے برطانیہ میں ہے، 2006ء میں شاہی ادارہ برائے چارٹرڈ سروییرس نے انکشاف کیا کہ 2001ء سے تقریباً لندن کے 500 چرچ گھروں میں تبدیل کردیئے گئے ہیں۔ دیگر ممالک جیسے جرمنی اور روس میں لوگ اب بھی کسی چرچ میں قیام کرنے کے نظریہ کو توہین سمجھتے ہیں لیکن بارک کلر ہٹ متوطن یوٹریٹ جو زیڈ ای سی سی ایک تعمیری کمپنی ہے جو کئی چرچوں کو قیامگاہوں میں نیدرلینڈس میں تبدیل کرچکی ہے، کہہ چکی ہیکہ وال اسٹریٹ جنرل کی یہ خبر بالکل جھوٹی ہے۔ چنانچہ یہ دعویٰ کہ 500 چرچ لندن میں میئر صادق خان کی میعاد میں بند کردیئے گئے، گمراہ کن ہے اور اس کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہے۔ تاہم اس تحریر کا استحصال بھی اس مرتبہ کیا گیا ہے کیونکہ خبر درحقیقت یہ ہیکہ کوئی درست اعداد و شمار موجود نہیں ہے کہ کتنی تعداد میں شرعی کونسلیں موجود ہیں۔ ایک تخمینہ کے بموجب کئی شرعی کونسلیں انگلستان اور ویلس میں 30 تا 85 تک مختلف تعداد میں موجود ہیں۔ خبر کے بموجب یہ ایک علمی خبر ہے اور تخمینہ کے بموجب 30 تا 85 شرعی کونسلیں موجود ہیں۔ یہ قطعی تعداد 85 نہیں ہوتی۔
