ندیم کی جانب سے زبردستی کرنے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ، عدالت کا ریمارک
لکھنؤ : الہ آباد ہائی کورٹ نے لوو جہاد کے نام پر ایک نوجوان کی گرفتاری پر روک لگا دی۔ درخواست گزار ندیم کو یہ کہتے ہوئے عدالت نے راحت دی کہ ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا جس سے یہ ظاہر ہو کہ ندیم نے کوئی زبردستی کی ہو۔’لوو جہاد‘ ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے جو دائیں بازو کی پارٹی کا سازشی نظریہ ہے کہ مسلمان مرد ’ لوو‘ یعنی پیار کے جال میں دوسرے مذہب کی لڑکیوں کو پھنسا کر جبراً مذہب تبدیل کرواتے ہیں۔ اِس وقت شمالی ہندوستان میں ’لوو جہاد‘ ایک مسئلہ بنا ہوا ہے اور اُس پر بحث ہو رہی، اسی دوران الہ آباد ہائی کورٹ نے کل جمعہ کو ’لو وجہاد‘ کے الزام میں 32 سالہ مسلم نوجوان کی گرفتاری پر روک لگادی ہے۔واضح رہے کہ اکشے کمار تیاگی نے اتر پردیش کے مظفرنگر علاقہ میں ندیم اور اس کے بھائی سلمان کے خلاف شکایت درج کرائی تھی۔ تیاگی کی شکایت پر ندیم کے خلاف نئے غیر قانونی تبدیلی مذہب آر دیننس 2020 کے تحت کیس درج کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ قانون حال ہی میں اتر پردیش کی یوگی حکومت نے مبینہ ’لو وجہاد‘ کو روکنے کے لئے بنایا ہے۔ایک علیحدہ میڈیا رپورٹ کے مطابق تیاگی نے شکایت کی تھی کہ ندیم جو مزدوری کا کام کرتا ہے وہ اکثر اس کے گھر آتا تھا اور اس نے اُس کی بیوی پایل کو مذہب تبدیل کرنے کے مقصد سے اپنی محبت کے جال میں پھنسا لیا تھا۔ تیاگی نے یہ بھی کہا کہ اس نے اس مقصد کیلئے اس کی بیوی کو اسمارٹ فون تحفہ میں دیا تھا اور اس سے شادی کا وعدہ کیا تھا۔ ندیم نے اس شکایت کے خلاف عدالت سے رجوع ہوکر اپنے خلاف ایف آئی آر کو ختم کرنے کیلئے درخواست داخل کی تھی۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اس کے خلاف ابھی کسی کارروائی کی وجہ نہیں بنتی اور اس کو پروٹیکشن دیتے ہوئے اگلی سنوائی تک اس کی گرفتاری پر روک لگا دی ہے۔عدالت نے کہا کہ ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا جس سے یہ ظاہر ہو کہ ندیم نے کوئی زبردستی کی ہو۔عدالت نے کہا کہ مبینہ مظلوم بالغ ہے جو اپنا بھلا بُرا اچھی طرح سمجھتی ہے۔ اس کا اور درخواست گزار کو اپنی نجی زندگی یعنی پرائیویسی کا بنیادی حق ہے اور دونوں بالغ ہیں جو اپنے اس مبینہ رشتہ کے نتائج جانتے ہیں۔
( لوو جہاد سے متعلق علحدہ خبر اندرونی صفحہ پر)