لو جہاد اسلامی تناظر میں

   

محمد حسین احمد
آج کل ہمارے ملک میں لو جہاد کی اصطلاح بہت زیادہ استعمال کی جارہی ہے اور اس اصطلاح کو گڑھنے و استعمال کرنے والے کون ہیں یہ بھی سارا ہندوستان جانتا ہے۔ لو جہاد کے نام پر مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے والوں کا مقصد و منشا کیا ہے اس سے بھی تمام ہندوستانی واقف ہیں۔ ملک کے مختلف ریاستوں اور شہروں میں اکثر یہ دیکھاگیا ہے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے لڑکے لڑکیاں پیار و محبت کے بعد آپس میں شادیاں کررہے ہیں۔ ایسی شادیوں کو ہمارے ملک میں قانونی طور پر بین مذاہب شادیاں کہا جاتا ہے لیکن فرقہ پرست عناصر ان بین مذہبی شادیوں کو ایک نئی اصطلاح ’’لو جہاد‘‘ کے ذریعہ اپنے ناپاک عزائم اور ایجنڈہ کی تکمیل کے لئے استعمال کررہیہیں۔ دراصل زعفرانی بریگیڈ شرارتاً اور فسادی منصوبہ کے تحت لو جہاد کی اصطلاح گڑھی ہے تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ واہمہ پیدا کیا جاسکے کہ اسلام جہاد کی شکل میں ہندو خواتین کے ساتھ مسلم نوجوانوں کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کرنے والا مذہب ہے۔ زعفرانی بریگیڈ کے خیال میں مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کو اپنے پیار میں پھنسا کر انہیں ان کا مذہب تبدیل کرواتے ہوئے مسلمان بنا رہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس میں کسی قسم کی سچائی ہے؟ لو جہاد کی شر پسند اصطلاح نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والے حساس لوگوں کو حیرت میں مبتلا کردیتی ہے۔ اس طرح کی بیہودہ اصطلاح واضح طور پر دل بہلانے کا معاملہ لگتی ہے اور اس پر سوائے افسوس اور حیرت کے کچھ نہیں ہوتا۔ ماضی میں بھی اس طرح کے واقعات پیش آئے تھے جہاں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی خاص طور پر تعلیم یافتہ مسلمانوں کے لئے وہ ہنسنے کا موقع تھا کیونکہ اس قسم کے حیرت زدہ کرنے والے نظریات بے وقوفی کے سوائے کچھ نہیں ہوسکتے۔ تعلیم یافتہ مسلمانوں نے اس طرح کے مسائل پر باوقار خاموشی کو برقرار رکھا۔ تاہم لو جہاد کے لغو نظریہ کو اگر قانونی شکل دی جائے جیسا کہ مدھیہ پردیش، اترپردیش اور ہریانہ کی حکومتیں کررہی ہیں یا سردست اس بارے میں بلز پیش کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ (حکومت اترپردیش نے تو اس ضمن میں ایک آرڈیننس جاری کردیا ہے)۔ اگر اس طرح کے قوانین بنائے جاتے ہیں تو اس سے نہ صرف ہندو خواتین یا لڑکیوں سے شادی کرنے والے مسلم مردوں کے خلاف قانونی کارروائی کے لئے یہ ایک آلہ کار بن جائیں گے بلکہ مسلم مردوں کے خاندانوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کا ذریعہ بنیں گے۔ اسی طرح اب وقت آگیا ہے کہ اسلام کے بارے میں جان بوجھ کر غلط معلومات اور جھوٹ پھیلانے والوں کا حقائق اور دلائل کے ذریعہ جواب دیا جائے۔ جہاں تک اسلام کا سوال ہے دین اسلام کسی بھی طرح مشرک خواتین کے ساتھ شادیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔

پیار اور جہاد یہ دو چیزیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ اگر پیار کے جدید نظریہ کا ہم جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ وعدے وفا کرنے کے لئے استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ لوگوں خاص کر مخالف صنف کا بنا کسی ہچکچاہٹ کے ایک دوسرے سے ملنا، ایک دوسرے میں خلط ملط ہو جانا، جنسی ہوس، ناجائز جنسی تعلقات، زنا، یہاں تک کہ بنا شادی کے ایک ساتھ زندگی گذارنا یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں عصر حاضر میں پیار کا نام دے دیا گیا ہے۔ اس کے برخلاف جہاد دراصل برائی کی جانب انسانوں کے جھکاؤ کے خلاف ایک مقدس جنگ ہے یعنی نفس کے خلاف جو کام کیا جاتا ہے اسے نفس کے خلاف جہاد کہا جاتا ہے اور اسلام میں اس جہاد کو سب سے بڑا جہاد کہا گیا ہے اور اس دور میں نام نہاد یا خودساختہ پیار کوئی معمہ نہیں رہا بلکہ کھلے عام کیا جارہا ہے۔ باالفاظ دیگر اپنی ہوس کو مٹانے کے عمل کو پیار کا نام دے دیا گیا ہے۔

اب چلتے ہیں جہاد کی طرف۔ جہاد دراصل ایک عربی لفظ ہے جس کے لغوی معنی کوشش یا جدوجہد ہے اور ایسی جدوجہد جو روح کی پاکیزگی باطینی مقاصد کے لئے اختیار کیا جانے والا عمل ہے۔ اسلامی تناظر میں یہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے ساتھ اس کی بتائی ہوئی تعلیمات اور حکم کے مطابق شخصی و سماجی زندگی گذارنا ہے۔ جہاد ایک ایسی جدوجہد ہے جو برائیوں اور بری نفسانی خواہشات کو ختم کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔ یہ ایسا عمل ہے جو اعلیٰ باطنی مقام حاصل کرنے کے لئے روح کی پاکیزگی کی طرف جس کا جھکاؤ ہوتا ہے۔ اسلام نے دیکھا کہ انسان کی روحانی و باطنی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ خواہشاتِ نفسانی ہے۔ صوفیوں اور اللہ والوں کے حلقوں میں روحانی و اخلاقی جہاد کو سب سے بڑا جہاد کہا گیا ہے یعنی نفس کے خلاف جہاد کو ’’جہاد اکبر‘‘ کا نام دیا گیا۔ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بناتا بے شک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے، مگر جس پر میرا رب رحم کرے، بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔ قرآن مجید میں ایک مقام پر یہ بھی آیا ہے کے میں نے اپنے نفس یعنی روح کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچا اور میں نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارہ میں ہی رہا‘‘۔ جہاں تک صنف مخالف سے پیار محبت کی جبلت کا سوال ہے اس کا مطلب اللہ تعالیٰ کے مقصد اعلیٰ کو پورا کرنا ہے یعنی شادی پھر اپنی اولاد کی پیدائش کے ذریعہ نسل انسانی کو آگے بڑھانا ہے۔ دین اسلام ایک مرد اور عورت کے درمیان محبت کے مضبوط رشتہ کو شادی کے ذریعہ یا پھر مقدس معاہدہ کے ذریعہ جسے نکاح کہا جاتا ہے اجازت دیتا ہے تاکہ ان مردوں اور عورتوں کے ذریعہ ان کی نسلیں وجود میں آئیں۔

اسلام کا بین مذہبی شادیوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اس نے کبھی بھی اس قسم کے شادیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ ہاں ! یہ سیکولر ہندوستان کا دستور ہے جس نے ہندوستانیوں کو چاہے وہ مرد و خواتین ہوانہیں اپنے شریک سفر کا اپنی پسند کے مطابق انتخاب کرنے کی آزادی دی ہے۔ ان حالات میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کا ملک بھر میں ہونے والی بین مذہبی شادیوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ویسے بھی قرآن مجید میں آیا ہے ’’اور مشرک عورتوں سے نکاح مت کرو جب تک مسلمان نہ ہو جائیں اور بے شک مسلمان لونڈی مشرکہ سے اچھی ہے اگرچہ وہ تمہیں بھاتی ہو اور مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں۔ بے شک مسلمان غلام، مشرک سے اچھا اگرچہ وہ تم کو بھاتا ہو۔ وہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت و بخشش کی طرف بلاتا ہے۔ اپنے حکم سے اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے کہ کہیں وہ نصیحت مانیں‘‘۔ اسلام میں یہ ہے کہ اگر کوئی لڑکی شادی کرنا چاہتی ہے تو وہ اپنے باپ یا پھر سرپرست کی موجودگی میں شادی کرے۔ ان کی منظوری سے شادی کرے۔ ہم نے پیار و محبت کی شادیوں کے نتائج دیکھے ہیں۔ ایسی شادیاں جو خواتین کے والدین کی مرضی کے بغیر ہوئی تھیں۔ ان شادیوں کا برا انجام نکلا اور ناموس کے نام پر ایک فریق یا فریقین کو قتل کردیا گیا۔ اس کے علاوہ مختلف مذہبی پس منظر کے باعث اس طرح کی شادیاں کئی پیچیدگیوں کا باعث بنتی ہیں۔ اسلام میں ماں باپ کی مرضی سے اور ان کی موجودگی میں شادی کو اہمیت دی گئی ہے۔ اگر لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو چاہتے بھی ہوں تو اس کے لئے خاندانوں کی منظوری ضروری ہے۔ اسلام کے مطابق لڑکے لڑکی میں محبت شادی کے بعد ہی پروان چڑھتی ہے۔ اسلام میں ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں پر ایک فرد اور اس کی اہلیہ یا بیوی کے درمیان محبت نے افسانوی شکل اختیار کرلی۔ تاج محل اس کی جیتی جاگتی مثال ہے یعنی ایک فرد اور اس کی بیوی کے درمیان غیر معمولی محبت کی یہ ایک نشانی ہے۔ ان تمام دلائل کے بعد اب کیا کوئی پھر یہی کہے گا کہ ہندوستان میں مسلم نوجوان لو جہاد کرتے ہوئے ہندو لڑکیوں کا مذہب تبدیل کروا رہا ہے اور اسلام مسلمان مردوں سے ہندو لڑکیوں کے شادیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔