لیڈی ڈاکٹر سے وحشیانہ سلوک کا عبرتناک انجام

   

سوشل میڈیا مسخروں کا پلیٹ فارم
حادثہ پر مدد کی بجائے سیلفی
سماج میں خواتین کا احترام لازمی

محمد نعیم وجاہت

شہر حیدرآباد میں دشا کے ساتھ وحشیانہ سلوک پر ملزمین کا عبرتناک انجام ہوا ہے۔ انکائونٹر صحیح یا غلط اس پر بحث کرنے کے بجائے عوام کے ردعمل کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لیڈی ڈاکٹر کی عصمت ریزی اور قتل پر عوام برہم تھے اور پولیس پر انگلیاں اٹھارہے تھے وہی عوام آج پولیس پر پھول برسا رہے ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں برے پیمانے پر آتش بازی کرتے ہوئے مٹھائیاں تقسیم کی گئی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس واقعہ پر عوام میں کتنا غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پولیس کمشنر سجنار کی جئے جئے ہورہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا یہ وہی سجنار ہیں جنہوں نے 10 سال قبل انجینئرنگ کی طالبات پر ایسڈ ڈالنے والے ملزمین کا انکائونٹر کیا تھا، جب وہ ضلع ورنگل کے ایس پی تھے۔ اب دشا کے قاتلوں کا بھی انکائونٹر کیا گیا ہے۔ جہاں دشا کو ہلاک کیا گیا تھا، ملک بھر میں سنسنی پھیلانے والے عصمت ریزی اور قتل کے واقعہ میں ملوث ملزمین کا جو حشر ہوا ہے اس پر زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیتیں چاہے وہ سیاستداں ہوں یا فلمی شخصیتیں یا عام افراد سبھی نے واقعہ کی ستائش کی ہے۔ حیدرآباد میں ایک جھنجھوڑ دینے والا واقعہ پیش آیا تھا۔ جس پر ملک بھر میں احتجاج کیا گیا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بھی اس کی گونج اٹھی ہے۔ تمام قائدین نے جماعتوں سے بالاتر ہوکر اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے خاطیوں کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ ویسے بھی برے کاموں کا برا انجام ہوتا ہے۔ ان چاروں ملزمین نے درندگی کی تمام حدیں پار کردی تھیں۔ لیکن انکائونٹر کے بعد اس طرح کی حرکت کرنے کے بارے میں سونچنے والے درندوں کو بہت برا سبق ملنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ دشا قتل معاملے کی سماج کے تمام طبقات نے مذمت کی ہے اور اپنے اپنے طور پر احتجاج بھی کیا ہے۔ مگر چند ایسے بھی لوگ ہیں جو اس واقعہ کو مذہب کی نظر سے دیکھنے اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے اور سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ سماج کو ایسے لوگوں سے بھی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ سماج میں جو برائیاں جنم لے رہی ہیں اس کے ہم سب برابر کے ذمہ دار ہیں۔ ملک میں اقلیتوں کے بعد خواتین میں بھی یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ وہ اب محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے واقعات حیدرآباد، انائو ہو کہ ملک کے دوسرے مقامات پر جب رونما ہوتے ہیں ماں باپ جن کے گھرانوں میں لڑکیاں ہیں وہ پریشان ہوجاتے ہیں۔ انہیں فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ ہماری بیٹیاں گھر سے باہر جارہی ہیں تو دوبارہ گھر واپس ہوں گی بھی یا نہیں۔ دشا کو تو انصاف مل گیا ہے مگر ملک میں ایسے کئی ماں باپ ہیں جنہیں اپنی بیٹیوں کو کھونے کے دس سال بعد بھی انصاف نہیں ملا ہے۔ نربھئے کا معاملہ ہمارے سامنے ہے۔ تقریباً 8 سال ہونے کے باوجود ملزمین کو ابھی تک سزا نہیں دی گئی ہے۔ عدالت نے انہیں پھانسی کی سزا سنائی ہے۔ چار دن پہلے کا واقعہ ہے، اترپردیش کے ضلع انائو میں ایک 23 سالہ متاثرہ کا ماہ مارچ میں گینگ ریپ کیا گیا تھا اور ملزمین کو ضمانت ملنے کے صرف تین چار دن بعد ملزمین نے متاثرہ پر کیروسن چھڑک کر آگ لگادی۔ بتایا گیا ہے کہ وہ 90 فیصد جھلس گئی ہے اور ہاسپٹل میں زندگی اور موت کے درمیان جدوجہد کررہی ہے۔ اترپردیش میں ہی ایک اور عصمت ریزی کے کیس میں بی جے پی کے رکن اسمبلی ملوث ہیں جن پر جیل میں رہتے ہوئے بھی متاثرہ کو ہلاک کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ثبوت مٹانے کا الزام ہے اور ایک بی جے پی کے سابق رکن پارلیمنٹ پر ایک وکالت کی ڈگری کرنے والی طالبہ پر جنسی ہراسانی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
کھٹوعہ واقعہ پر بھی سارے ملک میں احتجاج کیا گیا۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے کہ ایسے واقعات کے کیس کی تحقیقات میں انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کریں اور خاطیوں کو بچ کر نکلنے کا ہرگز موقع نہ دیں۔
دشا کے معاملے میں جب سارے ملک میں احتجاج ہورہا تھا اس وقت ملک کے عوام کی نظریں ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر کے سی آر پر تھیں جنہوں نے شہر سے 25 کیلومیٹر دورواقع متاثرہ کے گھر کا دورہ نہیں کیا اور نا ہی ان کے والدین کو پرسہ دیا ہے۔ جبکہ وہ شادی کی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے 1600 کیلومیٹر دور دہلی پہنچ گئے۔ جہاں میڈیا کے نمائندوں نے انہیں گھیر لیا تھا مگر وہ میڈیا کے کسی سوال کا جواب دیئے بغیر روانہ ہوگئے۔
بیٹیاں ہماری مہمان ہوتی ہیں ان کا خیال رکھنا اور ان کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ مگر مٹھی بھر چند عناصر جب درندگی پر اترتے ہیں تو ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ گھر سے لڑکیوں کی تربیت شروع کی جانی چاہئے ورنہ آج جو چنگاری ہے کل کو شعلہ نہ بن جائے اس کا خیال رکھنا ماں باپ اور گھر کے بڑے بزرگوں کے علاوہ استادوں کی ذمہ داری ہے۔ سب سے پہلے ہم اپنی ذمہ داری محسوس کریں دوسری کی جانب سے پہل کرنے کی امید کیئے بغیر خود اپنے ہی گھر سے لڑکوں کی تربیت کا آغاز کریں۔ یقیناً اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ مثال کافی مشہور ہے کہ ’ہر شام کی صبح ہے‘۔ مزید تاخیر کئے بغیر جاگنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔ اس طرح کے واقعات کے بعد عوام کا برہم ہونا غم و غصہ کا اظہار کرنا عام بات ہے مگر جذبات میں فیصلے کرنے کے بجائے سنجیدہ طور پر ان کا حل برآمد کرنے کے راستے دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ انکائونٹر کی ملک بھر سے ستائش ہورہی ہے۔ سوشیل میڈیا میں حیدرآباد پولیس ٹرینڈ بن گیا ہے۔ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کیا اس کے بعد ملک میں عصمت ریزی کے واقعات ختم ہوجائیں گے۔ کیا کوئی ضمانت دے سکتے ہیں کہ مستقبل میں ایسے واقعات دوبارہ رونما نہیں ہوں گے۔ موجودہ قوانین ایسے بھیانک جرائم کو روکنے کے لیے کافی ہیں یا مزید نئی قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا بھی جائزہ لیا جائے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ان کے بھائی، بیٹوں اور رشتہ داروں پر بھی اس طرح کے عصمت ریزی و قتل کے مقدمات درج ہیں کیا ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے گا جو دشا کے ملزمین کے ساتھ کیا گیا ہے۔ قانون کسی کا رشتہ دار نہیں ہوتا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے دشا کے قاتلوں کے ملزمین کے انکائونٹر کی جہاں اکثریت تائید کررہی ہے وہیں کچھ لوگ پولیس کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کی مخالفت بھی کررہے ہیں جس میں سابق مرکزی وزیر مینکا گاندھی نے سوال اٹھایا ہے کہ اب عدلیہ کا کیا کام ہے۔ یہ ایسا موضوع ہے جس پر چند دنوں تک مختلف حلقوں اور میڈیا ہائوزس پر بحث چلے گی مگر اس کا کیا فائدہ۔ کہیں نہ کہیں تو فل اسٹاپ لگانا ضروری ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ہمارا سماج بیدار و باشعور ہوگا۔ ان واقعات کی متاثرہ اور ان کے ارکان خاندان پر کیا بیت رہی ہے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان لڑکیوں کے ماں باپ سے دریافت کریں ان پر کیا گزر رہی ہوگی۔ ایسے متاثرین سے اظہار ہمدردی کرنے کے بجائے سماج میں ایسے بھی لوگ ہیں جن کے زخموں کو گہرا کرتے ہوئے یا طعنے دیتے ہوئے مزا لوٹنا چاہتے ہیں۔ اب تو سوشل میڈیا ان مسخروں کا پلیٹ فارم بن گیا ہے۔ اگر کوئی سڑک حادثہ میں ہلاک ہوجاتا ہے تو اس کی مدد کرنے کے بجائے سیلفی لینے یا سارے واقعہ کی آن لائین منظر کشی پر فخر محسوس کیا جارہا ہے۔ صرف چند لائکس، ری ٹویٹ یا کائونٹس کے لیے انسانیت کو شرمسار کیا جارہا ہے اور انسانیت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ ہم یہ سینہ ٹھوک کر دعوی کررہے ہیں کہ ہندوستان سوپر پاور کی طرز پر ترقی کررہا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں ہر دن ہر آدھے گھنٹے میں ایک عصمت ریزی کا واقعہ پیش آرہا ہے۔ قتل و غارت گری ہورہی ہے۔ شرح جرائم میں دن بدن اضافہ ہونا تشویش کی بات ہے ایسے واقعات کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ دوسروں پر انگلیاں اٹھانا آسان ہے مگر اس کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کرنا ناممکن بھی نہیں ہے۔ اب تک بہت احتجاج کرلیا گیا اب عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ گھروں سے ہی بچوں کی صحیح تربیت کرنے اور نصاب تعلیم میں اخلاقیات کو شامل کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ بالخصوص لڑکوں کو بچپن ہی سے خواتین کی عزت و احترام کرنے کا سبق سکھانے کے لیے سماج کو کمربستہ ہوجانا چاہئے۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے گھروں سے تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے اور اس تحریک کی قیادت خواتین کریں تو مزید بہتر ہوگا۔ کیوں کہ ماں کی گود ہی بچوں کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ مائوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنی گود میں کھیلنے والے بچہ کو صحیح تربیت دیتے ہوئے اس کی اور خواتین کی زندگی کو خوبصورت اور درخشاں بنانے کی کوشش کریں۔ جب ایک خاتون دوسری خاتون کا احترام کرنا شروع کرے گی تو سماج سے اس لعنت کا خاتمہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ گھر میں لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان فرق کرنا بند کردیں۔ بچوں کو گھروں اور اسکولس میں اقدار، اخلاص اور انسانی ہمدردی کی تربیت فراہم کریں۔ تبھی ہم بہتر سماج کی امید کرسکتے ہیں جب خواتین کا احترام کیا جانے لگے گا تو ایسے واقعات میں کمی آئے گی۔ لڑکیوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانا ضروری ہوگیا ہے۔ پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے ہولناک اور خطرناک واقعات میں انسانی ہمدردی کا ثبوت دیں۔ ا گر ان کے پاس کوئی متاثرہ یا ان کے ارکان خاندان کوئی شکایت لے کر پہونچتے ہیں تو پہلے اس کی فریاد سنیں۔ انہیں ذلیل کرنے کی کوشش نہ کریں اور نا ہی ایک پولیس اسٹیشن سے دوسرے پولیس اسٹیشن کو روانہ کرتے ہوئے ان کا وقت ضائع کرتے ہوئے کسی کی زندگی کو برباد کریں۔