گلاسگو : ضرر رساں گیسوں سے آلودگی پھیلانے والے دنیا کے دو سب سے بڑے ملکوں نے ’’ٹھوس اقدامات ‘‘ کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بہتر کوششوں کا اعلان کیا ہے۔ دونوں نے اس مسئلے پر مشترکہ کارروائی کرنے کا بھی عہد کیا ہے۔گلاسگو میں اقوام متحدہ کے سی پی او 26 اجلاس میں ہونے والے ایک حیران کن اعلان کے مطابق چین اور امریکا نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسائل پر ایک ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے آئندہ ایک دہائی تک کے لیے آپسی تعاون کو فروغ دینے سے اتفاق کر لیا ہے۔مشترکہ اعلامیے کے مطابق سن 2015 کے پیرس معاہدے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس تک درجہ حرارت کو محدود رکھنے کا جو ہدف مقرر کیا گیا تھا اس کو حاصل کرنے کے لیے دونوں فریق، ”مل کر کام کرنے کے اپنے پختہ عزم کو برقرار رکھیں گے۔” ان کا کہنا ہے کہ اس میں میتھین گیس کے اخراج کو کم کرنا، جنگلات کی حفاظت کرنا اور کوئلے کو مرحلہ وار ختم کرنے جیسی کوششیں شامل ہیں۔دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ ان کے معاہدے میں 2015 کے پیرس ماحولیاتی معاہدے کے رہنما خطوط کا استعمال کرتے ہوئے اس دہائی میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اقدامات میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس میں 2025 تک گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی کا ایک نیا ہدف بھی شامل ہے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود کرنے سے انسانیت کو موسم کے بدترین اثرات سے بچانے میں مدد ملے گی۔2015 میں پیرس میں، عالمی رہنماؤں نے ضرر رسا ں گیسوں کے بڑے پیمانے پر اخراج میں کمی کر کے دنیا کو ڈیڑھ سے دو ڈگری سیلسیئس تک کی حدت سے بچانے کی کوشش کرنے کا عہد کیا تھا۔