راہول گاندھی
میری بھارت ماتا ، میری مادر وطن ، میرا وطن عزیز صرف زمین کا ایک ٹکڑا ایک خطہ نہیں ہے یا چند تصورات و نظریات کا محض مجموعہ بھی نہیں ہے نہ ہی کسی ایک مذہب ، ایک عقیدہ ، ایک نظریہ ، ایک تہذیب ، ایک ثقافت یا خصوصی تاریخ کا بیانیہ بھی نہیں بلکہ بھارت ماتا ہر ہندوستانی شہری کی اپنی اپنی آواز ہے چاہے وہ شہری کمزور ہو طاقتور آپ سب جانتے ہیں ایک رکن پارلیمنٹ کو سرکاری بنگلہ ( گھر ) الاٹ کیا جاتا ہے میرے لئے وہ گھر کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ سارا ملک میرا گھر ہے ۔ پچھلے سال میں اپنے گھر یعنی بھارت کے آنگن میں 145 دن تک پیدل چلتا رہا ، اپنے ہم وطنوں سے ملتا رہا ان کے مسائل سے واقفیت حاصل کی ان کے دکھ درد اور خوشیوں میں شامل رہنے کا مجھے موقع ملا ۔ آپ کو یاد ہوگا ساحل سمندر سے میں نے اپنے اس سفر ( بھارت جوڑو یاترا ) کا آغاز کیا ۔ سردی ، گرمی ، بارش ، گرد و غبار سب کا سامنا کرنا پڑا ، وسیع عریض جنگلات ، میدانوں ، چراگاہوں ، شہروں ، کھیتوں ، دیہاتوں اور پہاڑی علاقوں سے گذرتے ہوئے جنت نشان کشمیر کی برفیلی وادیوں میں اپنے قدم رکھے مادروطن کے آنگن میں میرے چلنے پھرنے یعنی بھارت جوڑو یاترا کے دوران راہوں میں ٹھہرے میرے منتظر لوگوں میں سے کئی لوگوں نے دریافت کیا کہ آخر اپ اس طرح کیوں چل پڑے ہیں آج بھی ایسے بے شمار لوگ ہیں جو مجھ سے میرے اس سفر کے اغراض و مقاصد کے بارے میں استفسار کرتے ہیں ’’ پوچھتے ہیں کہ آپ کس چیز کی تلاش میں تھے؟ آپ آخر کیا ڈھونڈ رہے تھے ؟ اور اس سفر تلاش میں آپ نے کیا حاصل کیا ؟ بات دراصل یہ ہیکہ میں اس چیز کو سمجھنا چاہتا تھا جو میرے دل کے اتنے قریب ہے جس نے مجھ میں موت سے آنکھ ملانے اور چلتے رہنے کی تحریک عطا کی مجھ میں اس سفر کیلئے حوصلہ پیدا کیا جس نے مجھے درد و ذلت کو برداشت کرنے کی طاقت عطا کی اور جس کیلئے میں اپنا سب کچھ قربان کرسکتا ہوں یعنی اپنے وطن عزیز کیلئے میں سب کچھ قربان کرسکتا ہوں جب میں نے بھارت جوڑو یاترا شروع کی اس کے بارے میں آپ کو بتادوں کہ دراصل میں جاننا چاہتا تھا کہ یہ چیز آخر کیا ہے ؟ جسے میں بے حد عزیز و محبوب رکھتا ہوں ، یہ زمین ، یہ پہاڑ ، یہ جنگلات ، یہ وسیع و عریض میدان ، یہ سمندر ، یہ ندیاں ، یہ آبشار ، یہ جھرنے ، یہ لوگ یا کوئی نظریہ ( آئیڈیالوجی ) شائد میں اپنے باطن کو سمجھنا چاہتا تھا اور یہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ کیا چیز ہے جس نے میری روح کو پورے جتن کے ساتھ اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے ۔ آپ کی اطلاع کیلئے عرض کردوں کہ برسوں سے میری یہ عادت رہی ہیکہ روزانہ ورزش کرتا ہوں اور ہر شام تقریباً 8 – 10 کلو میٹر دوڑ لگاتا ہوں میں نے سوچا روزانہ صرف 25 کلو میٹر یہ کوئی مشکل کام نہیں اور میں اس بات کو لیکر بالکل مطمئن تھا کہ یہ ایک آسان پدیاتر ثابت ہوگی لیکن ایک ایسا مشکل مرحلہ اچانک منظر عام پر آیا وہ یہ کہ میرے گھٹنہ کی پرانی چوٹ جو علاج و معالجے کے بعد ٹھیک ہوگئی تھی اس چوٹ کا درد پھر سے عود کر آیا اور دوسرے دن صبح انہی کنٹینر کی تنہائی میں میری آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے اور میرے ذہن میں یہ خیالات گردش کررہے تھے کہ باقی کا 3800 کلو میٹر کا سفر کیسے طئے ہوگا ؟ ایسا لگ رہا تھا کہ اپنی کسرت کی عادت پر مجھے جو غرور تھا جو تکبر تھا وہ چکنا چور ہوچکا تھا ۔ چونکہ صبح کی اولین ساعتوں میں ہی یاترا شروع کردی جاتی تھی اس کے ساتھ میرے گھٹنے کا درد بھی شدت اختیار کرجاتا یعنی ایسا لگتا کہ ایک بھوکا بھیڑیا جس طرح اپنے شکار کا تعاقب یا پیچھا کرتا ہے وہ درد بھی اسی طرح میرا پیچھا کررہا ہے لیکن اچانک ایک انوکھے تجربہ سے آشنا ہوا جب بھی مرا دل و ذہن مایوس ہوجاتا میرا دل ڈوبنے لگتا اور میں سوچنے لگتا کہ ابھی نہیں چل پاوں گا اچانک کوئی آتا اور مجھے اپنے قدم آگے بڑھانے اپنا سفر جاری رکھنے کی توانائی سے سرشار کر جاتا ۔ کبھی خوشخط آٹھ سالہ پیاری لڑکی ، کبھی کیلے کے چپس کے ساتھ روشنی بکھرنے والی بزرگ خاتون ، کبھی ہجوم کے درمیان اگر مجھے گلے لگانے اور پھر ہجوم میں کہیں گم ہوجانے والا شخص ایسا لگتا تھا کہ کوئی غائبی طاقت کوئی ان دیکھی قوت قدم قدم پر میری مدد کررہی ہو ۔ جنگلوں میں جس طرح جگنو پائے جاتے ہیں اپنی روشنی سے اطراف و اکناف کے ماحول کو روشن کرتے ہیں اسی طرح وہ ان دیکھی طاقت میری راہیں روشن کررہی تھی ۔ میری پدا یاترا آگے بڑھتی گئی درد میں شدت کے باوجود میں آگے بڑھتا رہا لوگوں سے ملتا رہا ان کے مسائل سنتا رہا ہر روز میں بولتا کم اور لوگوں کے خیالات سنتا زیادہ تھا غرض میں ہر یوم 8 تا 10 گھنٹے باتیں کرتا اور اپنے گھٹنے کے درد کو بھول جانے کی کوشش کرتا رہتا ۔ پھر ایک دن مجھے ایک عجیب تجربہ کا احساس ہوا مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا ہاں ! صرف ایک شخص کی آواز کے جو میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لئے تھا دراصل وہ ایک کسان تھا وہ مجھے اپنی تکلیف سنا رہا تھا اس کے ہاتھوں کے لمس سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ برسوں سے تکلیف میں مبتلا ہو اس کے چہرے کے تاثرات اس قدر دردناک تھے جس سے اپنی اولاد کے مستقبل کیئے اس کا خوف واضح ہورہا تھا اور وہ خوف میں اپنے اندر محسوس کررہا تھا اس کی آنکھوں کے اطراف سیاہ دائرے اس کی اور اس کے بچوں کی تمام بھوکی راتوں کا حال احوال بتارہے تھے اس نے جب بتایا کہ وہ اپنے بستر مرگ پر پڑے باپ کیلئے بھی کچھ نہیں کرسکا تو میرا وجود ایسا محسوس ہوا کہ شدت غم سے دہل کر رہ گیا ہواس نے جب بتایا کہ اس کے پاس اپنی بیوی کو دینے کیلئے پیسہ نہیں ہوتے وہ شرمندگی اور پریشانی کے احساس میں بار بار دفن ہوتا رہتا ہے اس کے ایک ایک لفظ سے محسوس ہورہا تھا کہ میرے دل پر جیسے ہتھوڑے برس رہے ہوں ، اس کسان کے دکھ درد کے بارے میں سن کر میری زبان گنگ ہوگئی ایک طرح سے بے بس ہو کر ٹھہرگیا اور اس کسان کو اپنے گلے سے لگالیا اور پھر ہر دن یاترا میں ایسا ہی ہونے لگا ہنستے مسکراتے بچے ان کی مائیں طلبہ ، دکانداروں ، بڑھائیوں ، موچیوں ، زلف تراشوں اور مزدور میرے قریب آتے مجھے اپنی درد بھری داستانیں سناتے اور مجھے ان کے درد و الم اور پریشانیوں کے بارے میں سن کر ایسے محسوس ہوتا جسے ان کے یہ الفاظ میرے ذہن و قلب میں اتررہے ہوں ۔ یاترا کے دوران چلتے چلتے ہم ایک دن اُس راہ پر پہنچے جہاں بھیک مانگنے پر مجبور چند بچے میرے سامنے آگئے وہ شدید سردی سے کانپ رہے تھے انہیں دیکھ کر میں نے فیصلہ کرلیا کہ جب تک میں سردی برداشت کرسکتا ہوں یہی ٹی شرٹ زیب تن کروں گا ۔ اس یاترا کے باعث میرے بھروسہ اور عقیدہ کیو جہ اچانک مجھ پر ظاہر ہونے لگی کہ میری بھارت ماتا محض زمین کا ایک ٹکڑا نہیں ہے چند تصورات اور نظریات کا مجموعہ نہیں مجھے احساس ہوا کہ جس گوہر کی مجھے تلاش تھی وہ تو وہ مادر وطن کے بچوں کی مسکراہٹوں میں پایا جاتا ہے ۔