17سال بعد ممبئی کی خصوصی عدالت کا فیصلہ‘مہلوکین کے ورثا اورز خمیوںکو معاوضہ دینے کی ہدایت
ممبئی۔31؍جولائی ( ایجنسیز)ممبئی کی ایک خصوصی عدالت نے 2008 کے مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں جمعرات کو تمام ساتوں ملزمین کو بری کر دیا۔ بری کیے گئے افراد میں بی جے پی کی رکن پارلیمان پرگیہ سنگھ ٹھاکر، لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت، ریٹائرڈ میجر رمیش اپادھیائے، اجے راہیرکر، سمیر کلکرنی، سدھاکر چترویدی اور سدھاکر دھر دویدی شامل ہیں۔میڈیا کے مطابق، عدالت نے کہا کہ اگرچہ دھماکے کی حقیقت کو تسلیم کیا گیا مگر یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ موٹر سائیکل میں بم نصب کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سازش، میٹنگس اور فون کالز کی نگرانی کے الزامات کو بھی عدالت نے ناقابل قبول قرار دیا کیونکہ کال ریکارڈنگ کی اجازت قانونی طور پر حاصل نہیں کی گئی تھی۔خصوصی جج اے کے لاہوتی نے کہاکہ استغاثہ دھماکے کے پیچھے کسی مضبوط اور قابل اعتبار ثبوت کی فراہمی میں ناکام رہا اور شک کی بنیاد پر سزا نہیں دی جا سکتی۔ عدالت کے مطابق اگرچہ کچھ مشتبہ پہلو موجود تھے مگر وہ سزا کیلئے کافی نہیں تھے۔عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے کی دفعات لاگو کرنے کیلئے جو منظوری نامے پیش کیے گئے وہ بھی قانونی لحاظ سے ناقص تھے۔ چنانچہ ان دفعات کو بھی مقدمے میں شامل کرنا درست نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے حکومت کو ہدایت دی کہ مالیگاؤں دھماکے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو دو‘ دو لاکھ روپے جبکہ زخمیوں کو پچاس ہزار روپے معاوضہ دیا جائے۔واضح رہے کہ 29 ستمبر 2008 کو مہاراشٹرا کے ضلع ناسک سے تقریباً 100 کلومیٹر دور مالیگاؤں میں جو کہ پاور لوم انڈسٹری کیلئے مشہور ہے، ایک مصروف چوراہے پر بم دھماکہ ہوا تھا۔ یہ دھماکہ رمضان کے دوران مسلم اکثریتی علاقے میں ہوا تھا جس میں 6 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ تفصیلات کے مطابق 29 ستمبر 2008 کو رمضان کے دوران عشاء کے وقت مالیگاوں کے بھکو چوک میں بم دھماکہ ہوا تھا، جس میں 6 افراد شہید اور 101 زخمی ہوئے تھے ۔ 30 ستمبر کو آزاد نگر پولیس نے ایف آئی آر درج کی، جسے بعد میں اے ٹی ایس نے اپنے ہاتھ میں لیا اور 12 ملزمین کو گرفتار کیا جن میں سادھوی پرگیہ، کرنل پروہت، میجر اپادھیائے ، سمیر کلکرنی، اجے راہیکر، سدھاکر دھر دویدی، اونکار چترویدی، راکیش دھاؤڑے ، جگدیش مہاترے ، شیو نارائن کلسانگرا، شیام شاہو اور پروین ٹکلی شامل ہیں۔20 جنوری 2009 کو چارج شیٹ داخل ہوئی، مارچ 2011 میں این آئی اے نے دوبارہ تفتیش شروع کی۔ مئی 2014 میں حکومت بدلنے کے بعد وکیل روہنی سالیان نے استعفیٰ دیا اور اویناش رسال نے چارج سنبھالا۔ 13 جون 2016 کو سادھوی کو کلین چٹ دی گئی، جس پر بامبے ہائی کورٹ نے 25 اپریل 2017 کو اسے ضمانت دی۔ بعد ازاں کرنل پروہت کو سپریم کورٹ نے 21 اگست 2017 کو ضمانت پر رہا کیا۔ عدالت نے یکے بعد دیگرے دیگر ملزمین کو بھی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔27 دسمبر 2017 کو 7 ملزمین کے خلاف چارج فریم کیا گیا، جب کہ 3 ملزمین کو مقدمے سے ڈسچارج کر دیا گیا اور 2 کے مقدمات پونے اور تھانے منتقل کیے گئے ۔ 30 اکتوبر 2018 کو مقدمے کی باقاعدہ سماعت کا حکم دیا گیا۔ 3 دسمبر 2018 کو پہلے گواہ اور 4 ستمبر 2023 کو آخری گواہ کی کی گواہی ہوئی ۔
آج ہندوتوا کی فتح ہوئی ہے:سادھوی پرگیہ
ممبئی، 31 جولائی (یو این آئی) مہاراشٹر کے مالیگاؤں بم دھماکہ مقدمے میں بری ہونے کے بعد سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے جمعرات کو اعلان کیا کہ آج ہندوتوا کی فتح ہوئی ہے ، بھگوا کی کامیابی ہوئی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ 17 برس تک توہین اور ذلت کا سامنا کیا لیکن آج راحت محسوس کر رہی ہیں۔ عدالتی فیصلہ سننے کے بعد سادھوی پرگیہ جذباتی ہو گئیں اور صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جب پہلی مرتبہ تفتیش کیلئے طلب کیا گیا تو انسانیت اور عدل کے احترام کے ساتھ حاضر ہوئی تھی۔ مجھے 13 روز تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا، میری زندگی برباد کر دی گئی۔ مجھے 17 سال ذلیل کیا گیا۔ مجھے اپنے ہی وطن میں دہشت پسند قرار دیا گیا۔ میں ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی جنہوں نے مجھے ان حالات تک پہنچایا۔ میں زندہ ہوں کیونکہ میں سنیاسی ہوں۔
مالیگاؤں دھماکہ کیس: عدالت کے فیصلہ سے مہلوکین کے رشتہ دار مایوس
17 سال بعد بھی ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہوا‘ آزادانہ طور سے فیصلہ کیخلاف اپیل دائر کریں گے:ایڈوکیٹ شاہد ندیم
ممبئی۔ 31؍جولائی ( ایجنسیز ) مہاراشٹر کے مالیگاؤں میں 2008 میں ہوئے دھماکوں کے معاملے میں ممبئی کی خصوصی عدالت کا فیصلہ سامنے آ چکا ہے۔ اس معاملے میں ممبئی کی خصوصی عدالت نے ساتوں ملزمین بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، کرنل پرساد پروہت، ریٹائرڈ میجر رمیش اپادھیائے، سدھاکر چترویدی، اجے راہیرکر، سدھاکر دھر دویدی اور سمیر کلکرنی کو بری کر دیا ہے۔اس دھماکہ میں اپنے رشتہ داروں کو کھونے والوں نے عدالت کے فیصلے پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ مہلوکین میں سے ایک سید اظہر سید نثار کے والد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ کے 17 سال بعد بھی ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہوا ہے۔ سبھی ثبوتوں کو درکنار کرتے ہوئے فیصلہ سنایا گیا۔ ہم اس فیصلے کے خلاف اوپری عدالت میں جائیں گے۔ اس دھماکے میں کئی بے قصور لوگوں کی جان گئی تھی۔اسی دھماکے میں لیاقت شیخ کی 10 سال کی بیٹی فرحین عرف شگفتہ شیخ لیاقت کی بھی موت ہو گئی تھی۔ یہ بچی بھیکھو چوک پر بڑا پاؤ لینے گئی تھی لیکن واپس نہیں آ سکی۔ جب انہیں دھماکے کے بارے میں پتہ چلا تو لیاقت شیخ تھوڑے پریشان ہوئے مگر انہیں امید تھی کہ ان کی بیٹی گھر لوٹ آئے گی لیکن تھوڑی دیر بعد ایک پیغام آیا کہ فرحین کی اس دھماکہ میں موت ہو گئی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنی بیٹی کو دیکھنے گئے لیکن انہیں اس سے ملنے نہیں دیا گیا۔ فی الحال لیاقت شیخ کے پاس اس چھوٹی بچی کی ایک چھوٹی سی پیاری سی تصویر ہے۔ لیاقت کو امید تھی کہ انہیں انصاف ملے گا لیکن وہ عدالت کے فیصلے سے مایوس ہیں۔میڈیا کے مطابق مالیگاؤں دھماکہ معاملے میں متاثرہ خاندانوں کے وکیل‘ ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے کہا کہ بم دھماکہ کی تصدیق عدالت کے ذریعہ کی جا چکی ہے۔ ہم اس بری کیے جانے کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ ہم آزادانہ طور سے اس کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔واضح رہے کہ 29 ستمبر 2008 کو مالیگاؤں کے بھیکھو چوک میں شہر کو ہلا دینے والا ایک بم دھماکہ ہوا تھا۔ بعد میں این آئی اے نے عدالت سے مشتبہ ملزمین پرگیہ سنگھ ٹھاکر سمیت 7 لوگوں کو موت کی سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس لیے سب کی نگاہیں اس بات پر ٹکی تھیں کہ عدالت کیا فیصلہ سناتی ہے لیکن اب ممبئی کی ایک خصوصی عدالت نے فیصلہ سنا دیا ہے جس میں سبھی سات مزمین بری کر دیے گئے ہیں۔مہلوکین میں فرحین عرفت شگفتہ لیاقت، شیخ مشتاق یوسف، شیخ رفیق مصطفیٰ، عرفان ضیا اللہ خان، سید اظہر سید نصار اور اور ہارون شاہ محمد شاہ شامل تھے۔مالیگاؤں دھماکہ کیس کے ممبئی کی خصوصی عدالت کے فیصلہ پر اپوزیشن جماعتوں نے بعض قائدین نے بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
مالیگاؤں دھماکہ:متاثرین کے لواحقین نے عدالتی فیصلے کو ’ناانصافی‘قرار دیا
ممبئی، 31 جولائی (یو این آئی) مالیگاؤں بم دھماکے میں جاں بحق افراد کے اہل خانہ نے این آئی اے کی خصوصی عدالت کے حالیہ فیصلے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے انتہائی ’’ناانصافی‘‘ سے تعبیر کیا ہے ۔ اگرچہ کچھ نے تسلیم کیا کہ وہ اس المیے کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں، لیکن بہت سے اب بھی انصاف کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ بری کیے جانے والوں میں بی جے پی کی سابق رکن پارلیمنٹ پرگیہ سنگھ ٹھاکر شامل ہیں، جن پر الزام تھا کہ انہوں نے 29 ستمبر 2008 کو بھیکھو چوک میں دھماکے میں استعمال ہونے والی موٹرسائیکل فراہم کی تھی، جس میں چھ افراد جان بحق اور پچانوے زخمی ہوئے تھے ۔ اسی طرح ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت پر دھماکہ خیز مواد فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس فیصلے نے استغاثہ کی خامیوں کو اجاگر کر دیا۔ اگرچہ دھماکہ ہونے کی تصدیق ہوئی، تاہم عدالت کو ایسا کوئی قابل قبول ثبوت نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ بم موٹر سائیکل پر نصب کیا گیا تھا۔میڈیکل دستاویزات کو جھوٹا قرار دیا گیا جن میں زخمیوں کی تعداد بڑھا کر پیش کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں انسداد دہشت گردی اسکواڈ کے خلاف شواہد میں چھیڑ چھاڑ کی چھان بین کا حکم صادر ہوا۔ گواہوں کی شہادتیں بھی استغاثہ کے بیانیے کی تائید کرنے میں ناکام رہیں۔ اگرچہ مقدمے میں آر ڈی ایکس کا ذکر کیا گیا، لیکن کوئی ثبوت لیفٹیننٹ کرنل پروہت کو اس کے ذخیرے یا تیاری سے جوڑنے میں ناکام رہا، البتہ عدالت نے تسلیم کیا کہ انہوں نے گروپ کے فنڈز کو ذاتی استعمال کیلئے استعمال کیا۔
موٹرسائیکل کا مٹایا گیا فریم نمبر پرگیہ سنگھ کی ملکیت کے ثبوت کو متاثر کرنے میں معاون رہا، جبکہ انسداد دہشت گردی قانون کے اطلاق کے لیے ضروری منظوری میں کمی بھی رکاوٹ بنی۔
فیصلے نے متاثرہ خاندانوں کے زخموں کو ایک بار پھر تازہ کر دیا۔ پچہتر سالہ نثار بلال، جن کا انیس سالہ بیٹا اظہر (جو قرآن کریم کا طالب علم اور مکینک بننے کا خواہش مند تھا) اس سانحے میں جاں بحق ہوا، وہ اپنی سماعت کی کمزوری کے باوجود سالوں عدالتوں میں حاضر ہوتے رہے تاکہ انصاف کی آخری امید باقی رہے ۔ لیاقت شیخ، جن کی دس سالہ بیٹی فرحین سب سے کم عمر شہید تھی، متعدد احتجاجی مظاہروں میں بیٹی کی تصویر لیے انصاف کی دہائی دیتے رہے ، لیکن اب پرامن مستقبل کی امید دم توڑتی نظر آتی ہے ۔ 38 سالہ ریحان شیخ، جنہیں اپنے والد کی وفات کے بعد محض تیرہ برس کی عمر میں گھر کا کفیل بننا پڑا، اپنی چھنی ہوئی زندگی کو یاد کرتے ہوئے غمزدہ نظر آئے ۔ اسی طرح 23 سالہ آٹو رکشہ ڈرائیور عرفان خان، جو دھماکے کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چند دن میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، ان کے اہل خانہ نے بھی شدید مایوسی کا اظہار کیا کہ مجرم سزا سے بچ نکلے ۔ ہارون شاہ کے پوتے امین نے اس دکھ کا اظہار کیا کہ ان کے ساٹھ سالہ دادا کو انصاف نہ مل سکا۔ متاثرہ خاندان اب اس فیصلے کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں چیلنج کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئے ہیں۔