l مسجد اقصیٰ میں حفاظت کی غرض سے پابندیاں نافذ کی جائیں گی l لاکھوں فلسطینیوں کی نماز کیلئے آمد پریشان کن l اسرائیلی حکومت کے ترجمان ڈیویڈمینسر کی آن لائن بریفنگ
تل ابیب: اسرائیل نے جمعرات کو کہا کہ وہ ہفتے کے آخر میں شروع ہونے والے مقدس ماہِ رمضان کے دوران یروشلم کے قدیم شہر میں واقع مسجدِ اقصیٰ کے احاطہ میں حفاظت کی غرض سے پابندیاں نافذ کرے گا۔مشرقی یروشلم میں واقع اسلام کے تیسرے مقدس ترین مقام مسجدِ اقصیٰ میں رمضان المبارک کے دوران لاکھوں فلسطینی نماز ادا کرنے کیلئے آتے ہیں۔ یہ مقدس شہر کا ایک حصہ ہے جس پر اسرائیل نے قبضہ اور اس کا الحاق کر رکھا ہے۔اس سال اتفاق سے ماہِ رمضان غزہ میں ایک نازک جنگ بندی کے موقع پر آیا ہے جس سے ایک تباہ کن جنگ کے بعد بہت حد تک لڑائی رکی ہوئی ہے۔ اس سے فلسطینی علاقے میں ہزاروں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔اسرائیلی حکومت کے ترجمان ڈیوڈ مینسر نے صحافیوں کو ایک آن لائن بریفنگ میں بتایا کہ عوامی تحفظ کیلئے معمول کی پابندیاں اسی طرح نافذ ہوں گی جیسے ہر سال ہوتی رہی ہیں۔ گذشتہ سال غزہ جنگ کے دوران اسرائیلی حکام نے مسجدِ اقصیٰ آنے والے بالخصوص مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی زائرین پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔صرف 55 سال اور اس سے زیادہ عمر کے مردوں اور 50 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کو سکیورٹی وجوہات کی بناء پر مسجد کے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی جبکہ قدیم یروشلم کے طول و عرض میں ہزاروں اسرائیلی پولیس اہلکار تعینات تھے۔ مینسر نے عندیہ دیا کہ اس سال دوبارہ احتیاطی اور حفاظتی اقدامات اختیار کیے جائیں گے۔انہوں نے اس سال پولیس کی تعیناتی کی تفصیل بتائے بغیر کہا کہ جو ہم یقینا برداشت نہیں کر سکتے اور کوئی بھی ملک نہیں کرے گا، وہ ایسے لوگ ہیں جو تشدد اور کسی اور پر حملوں کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ فلسطینی قومی شناخت کی علامت ہے۔دیرینہ کنونشن کے مطابق یہودیوں کو یہاں آنے کی تو اجازت ہے لیکن وہ احاطے میں عبادت نہیں کر سکتے جس کی وہ اپنے دوسرے ہیکل کے مقام کے طور پر تعظیم کرتے ہیں جسے رومیوں نے 70 عیسوی میں تباہ کر دیا تھا۔ حالیہ برسوں میں یہودی انتہا پسندوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے ان قواعد کی خلاف ورزی کی ہے بشمول انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان اتمار بین گویر جنہوں نے 2023 اور 2024 میں قومی سلامتی کے وزیر کے طور پر خدمات انجام دیتے ہوئے وہاں عوامی طور پر دعا کی تھی۔
اسرائیلی حکومت نے بارہا کہا ہے کہ وہ مسجد کے احاطے میں حسبِ حال معاملات برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن اس کے مستقبل کے بارے فلسطینیوں کے خدشات کے باعث یہ ایک نکت? اشتعال بن گیا ہے۔گذشتہ سال اسرائیل نے غزہ میں جنگ ہونے کے باوجود مسلمانوں کو پہلے کی طرح مسجدِ اقصیٰ میں عبادت کرنے کی اجازت دی تھی۔