ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں کا چیف منسٹر سے مطالبہ
ملت فنڈ اور فیض عام ٹرسٹ کی جانب سے متاثرہ علاقوں میں برتنوں و بلینکٹس اور ادویات کی ہوگی تقسیم
حیدرآباد : ہمارے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں گذشتہ ایک ہفتہ سے طوفانی بارش کا سلسلہ جاری ہے اس مرتبہ کی سیلابی بارش نے یقینا 1908 کی طغیانی کی یاد دلادی تاہم اس طغیانی اور موجودہ بارش میں فرق یہ ہے کہ اس وقت آصفجاہی حکمرانی تھی اور اس وقت جمہوری حکومت ہے لیکن رعایا کو سہولتیں فراہم کرنے کے معاملہ میں اس دور کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔ بہرحال پرانا شہر اور نئے شہر میں ایسے دردناک مناظر دیکھے گئے جس سے ہمارے دل دہل جاتے ہیں۔ جب حیدرآباد کے لوگوں نے بوٹ اُلٹنے کے دورن کسی ماں کی درد بھری آواز سنی کہ میرا بچہ ، میرا بچہ ، اس دردناک آواز نے شہریوں کی نیندیں اُڑادیں۔ شہر کے کسی کونے میں دو لڑکیوں کا جہیز بہہ گیا تب ان کے ماں باپ کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کا درد اُس تباہی سے زیادہ محسوس ہونے لگا جو بہتے پانی کی لہروں کی زد میں آنے والے گھروں کے مکینوں نے محسوس کیا۔ پچھلے ایک ہفتہ کے دوران بابا نگر سے لیکر ندیم کالونی ٹولی چوکی میں ایسی آوازیں بھی سنی گئیں جس کے ذریعہ مائیں اپنے بچوں کیلئے دودھ، مجبور بیٹے اپنے ماں باپ کیلئے ادویات، تباہ شدہ مکانات کے مکین آسرا، تاریکی میں ڈوبے ہوئی بستیوں کے لوگ کم از کم موم بتیاں طلب کررہے تھے اور جن لوگوں کے ارکان خاندان ان کی اپنی نظروں کے سامنے بہہ گئے ان کے رنج و الم کا اندازہ کوئی بھی نہیں لگاسکتا۔ ایک طرف شہر کے نالوں سے پانی اُبل رہا تھا اور دوسری طرف اپنے پیاروں کیلئے روتے روتے اُن لوگوں کی آنکھوں کے آنسو بھی خشک ہوچکے تھے۔ آج ہر حیدرآبادی یہی سوچ رہا ہے کہ ہمارے شہر کو آخر کس کی نظر لگ گئی ہے۔ بہر حال اپنے اُن مصیبت زدہ بھائی بہنوں کی مدد کرنا ہم سب کا فریضہ ہے۔
اس ضمن میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے ایڈیٹر ’سیاست‘ جناب زاہد علی خاں نے کہا ہے کہ ملک کے مختلف مقامات پر سیلابی بارش کی تباہ کاریوں کو ہم نے دیکھا جو حقیقت میں آفات سماوی تھی لیکن ہمارے شہر میں بارش نے جو تباہی مچائی وہ انسانوں کی کارستانی ہے۔ لینڈ گرابرس نے شہر اور شہر کے اطراف حضور نظام کے دور میں بنائے گئے1600 سے زائد تالابوں، کنٹوں اور جھیلوں ( صرف حیدرآباد اور اس کے مضافات میں 530 جھیلیں ہوا کرتی تھیں ) کے پیٹ مٹی سے بھردیئے اور پھر ان کی پلاٹنگ کردی گئی۔ ان لینڈ گرابرس نے یہ سب کچھ اپنے پیٹ بھرنے کیلئے کیا اور آبی ذخائر کے پیٹ مٹی سے بھردیئے ۔ جناب زاہد علی خاں نے مزید کہا کہ چیف منسٹر کے سی آر نے بارش کے متاثرین کیلئے راحتی پیاکیج کا اعلان کرتے ہوئے جن لوگوں کے مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں انھیں ایک لاکھ روپئے، جن لوگوں کے مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے انہیں 50 ہزار روپئے اور جو لوگ بارش سے متاثر ہوئے ہیں انہیں 10 ہزار روپئے دینے کا اعلان کیا اور متاثرین میں دس ہزار روپئے تقسیم کرنے کا آغاز بھی ہوچکا ہے لیکن وہ ( جناب زاہد علی خاں ) حکومت کو یہ مشورہ دینا چاہیں گے بلکہ یہ ان کا مطالبہ ہے کہ جن لوگوں کے مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں انہیں 3 تا 5 لاکھ روپئے، جزوی نقصانات اُٹھانے والوں کو 2 لاکھ روپئے اور متاثرین کو 10 ہزار روپیوں کی بجائے50 ہزار روپئے معاوضہ ادا کیا جائے تاکہ متاثرین اپنی زندگیوں کا ازسر نو آغاز کرسکیں۔ ایڈیٹر ’سیاست‘ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ آج ہمارے شہر کے لوگ پریشان ہیں اور شدید متاثرہ علاقوں جیسے بابا نگر، الجبیل کالونی، عمر کالونی، ندیم کالونی ٹولی چوکی، یاقوت پورہ کے کئی علاقے تالاب کٹہ، علی نگر بندلہ گوڑہ، سبحان کالونی، نیو محمد نگر اور بالا پور کے بیشتر علاقوں میں مقیم لوگوں کی ہر طرح مدد کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں جناب زاہد علی خاں نے سکریٹری فیض عام ٹرسٹ جناب افتخار حسین کے ساتھ ملکر اعلان کیا کہ سیاست ملت فنڈ اور فیض عام ٹرسٹ کی جانب سے ان علاقوں کے متاثرین میں برتن، بلینکٹس، ادویات اور اشیائے ضروریہ تقسیم کی جائیں گی۔ اس ضمن میں دفتر ’سیاست‘ میں ملت فنڈ کا ایک مشاورتی اجلاس بھی منعقد ہوا۔ جناب زاہد علی خاں نے حکومت خاص طور پر جی ایچ ایم سی کے حکام پر زور دیا کہ وہ بارش سے متاثرہ علاقوں میں جو کوڑا کرکٹ جمع ہوگیا ہے، بارش میں مکانات کا جو سامان تباہ ہوا ہے اس کی بڑی تیزی کے ساتھ صفائی عمل میں لائے ورنہ موجودہ حالات میں جبکہ کورونا بھی اپنے زوروں پر ہے وبائی امراض پھوٹ پڑنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ جناب زاہد علی خاں نے دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم حیدرآبادیوں سے بطور خاص اپیل کی کہ مصیبت کی اس گھڑی میں وہ اپنے شہر کے لوگوں کی دل کھول کر مدد کریں۔