متوسط طبقہ کی گمشدگی کا المیہ

   

پی چدمبرم

ہندوستان ایک کثیر آبادی والا ملک ہے جس کی آبادی زائد از 138 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اور جہاں کی فی کس آمدنی 98 ہزار پائی جاتی ہے جبکہ معاشی تفاوت بھی بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس طرح فی کس آمدنی اور شدید معاشی تفاوت کے باعث متوسط طبقہ کے حجم یا سائز کا پتہ لگانا مشکل ہے۔ اس میں سب سے پہلی رکاوٹ کو ہم تشریحی یا تعریفی رکاوٹ کہہ سکتے ہیں اور یہ بھی دیکھا جانا چاہئے کہ متوسط طبقے کو شمار کرنے یا اس کی گنتی کے لئے آمدنی کی حد یا انکم سلیب کیا ہے؟ واضح رہے کہ ہمارے ملک کی آبادی کے صرف ایک فیصد حصہ کا 73 فیصد دولت پر قبضہ ہے، جبکہ نچلے سطح میں رہنے والوں کی تعداد خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں 20 فیصد تصور کرلی جاتی ہے یا کرلی جانی چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آبادی کا ایک فیصد حصہ 73 فیصد دولت پر قابض ہے جبکہ ایک ایسا حصہ ہے جس کے قبضہ میں 20 فیصد دولت ہے۔ اب باقی 7 فیصد دولت باقی رہ جاتی ہے اور اس تعلق سے ہم اس حصہ کو متوسط طبقہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ متوسط طبقہ کی تعداد 7 فیصد ہے۔ اگرچہ یہ تعداد بھی بہت زیادہ ہے یا اپنے میں غیر معمولی وسعت رکھتی ہے۔ 7 فیصد کا مطلب یہی ہوا کہ متوسط طبقہ کی آبادی تقریباً 10 کروڑ ہے اور 10 کروڑ آبادی کوئی معمولی آبادی نہیں بلکہ دنیا کے کم از کم 14 ممالک کی آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔
دوسری رکاوٹ جو ہے وہ طرز زندگی یا معیار زندگی ہے جسے ہم متوسط طبقہ کی زندگی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ آپ تصور کیجئے کہ 98 ہزار روپے فی کس آمدنی سے کس قسم کی زندگی یا اس کی سہولیات خریدی جاسکتی ہیں۔ 98 ہزار روپے کا مقصد یہی ہوا کہ فی کس 8 ہزار روپے کی آمدنی۔ یہ ایسی رقم ہے جو روٹی، کپڑا اور مکان، تعلیم صحت، تفریح و طبع اور بچت کے لئے بمشکل کافی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ہر کسی کو یہ سہولتیں درکار ہوتی ہیں۔ ہر انسان یہی چاہتا ہے کہ اسے تغذیہ بخش روٹی ملے، جسم کو ڈھانکنے والا اچھا لباس ملے اور رہنے کے لئے اچھا گھر ملے۔ زندگی بسر کرنے کے لئے تعلیمی سہولتیں میسر ہوں اور صحت عامہ کی سہولتیں بھی اسے فراہم کی جائیں۔ زندگی میں خوشیوں و مسرت کے لئے تفریح و طبع بھی بہت ضروری ہے۔ اگر متوسط طبقہ کی سالانہ آمدنی پر غور کیا جائے تو اس کی آمدنی موجودہ فی کس آمدنی سے کم از کم 2 یا 3 گنا زیادہ ہونی چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ متوسط طبقہ کی آبادی اُس طبقہ کی آبادی سے زیادہ نہیں ہوگی جو انکم ٹیکس ادا کرتا ہے۔ انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد کا جہاں تک سوال ہے 2018-19 میں یہ تعداد 3.29 کروڑ تھی جو جملہ آبادی کا بمشکل 2.4 فیصد حصہ بنتی ہے۔
کبھی دیکھا نہ سنا
بالفرض ہم متوسط طبقہ کی تعداد سے متعلق اندازاً تین کروڑ اور 10 کروڑ کے درمیان کا ایک تخمینہ مقرر کرلیں تو پھر اس کے درمیانی عدد یعنی 6 کروڑ ان کی آبادی سمجھ لیں۔ ان میں تاجرین، کاروباری حضرات، کسان، ججس، وکلا، ڈاکٹرس، انجینئرس، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس، اداکار و اداکارائیں، ادیب و مصنفین اور دیگر پیشہ وارانہ ماہرین شامل ہیں۔
متوسط طبقہ کی شرکت کے باعث ہی سیاسی شعبہ مہذب شعبہ کی حیثیت سے منظر عام پر آیا۔ ہمیشہ امیدواروں کی حیثیت سے نہیں بلکہ حکمت ساز، تجزیہ نگار اور غیر معمولی اظہار رائے کرنے والے کی حیثیت سے سیاسی شعبہ کو اس طبقہ نے ایک نئی جہت عطا کی۔ اسی متوسط طبقہ سے اچھوتا مینن، سی سبرامنیم، وریندر پاٹل اور سنجے ویا جنوب میں اور کئی دوسرے شمال میں نمودار ہوئے۔ متوسط طبقہ نے اپنے اظہار خیال اور حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں و جدوجہد جیسے کسانوں کے احتجاج میں نہ صرف مصالحت کار کا رول ادا کیا بلکہ اس میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح کسانوں سے لے کر ٹریڈ یونین کے احتجاجی مظاہروں، طلبہ کے مظاہروں میں بھی متوسط طبقہ کا اہم کردار رہا ہے۔ متوسط طبقہ نے ہمیشہ صاف و شفاف معاشرہ کی تشکیل کو ترجیح دی اور مساوات کی اہمیت کو منوانے جدوجہد کی ہے۔ اس طبقہ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان اقدار کا احترام کیا جائے لیکن افسوس آج ایسا لگتا ہے کہ متوسط طبقہ کہیں غائب ہو گیا ہے۔ اس کی موجودگی ہمیں صرف ماہرین اقتصادیات کی جانب سے کئے جانے والی درجہ بندی میں دکھائی دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس طبقہ نے زندگی کے تمام شعبوں میں اپنے عملی اقدامات سے دوری اختیار کرلی ہے۔ متوسط طبقہ کی خالی جگہ کو کل وقتی سیاست دانوں نے پُرکرلیا ہے اور اب وہی مختلف انجمنوں، سوسائٹیز، کھیل کود کے اداروں، امداد باہمی کی انجمنوں، ٹریڈ یونینس، مندروں کے ٹرسٹوں اور معاشرہ کے دیگر منظم اکائیوں میں دکھائی دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کیوں عوامی زندگی خاص طور پر سیاست آج ایک تلخ اور دولت کی متقاضی، فحش گوئی سے متاثر ہوئی ہے۔
یہ دیکھ کر بہت ہی افسوس ہوا ہے کہ متوسط طبقہ نے سنگھو اور تکری سرحد پر کسانوں کے 100 دن سے زائد عرصہ سے جاری احتجاجی مظاہروں پر معاندانہ رویہ اختیار کیا یہ طبقہ صرف اس وقت کھڑا ہوا جب نربھئے کا ہولناک واقعہ پیش آیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ماضی میں ہر احتجاجی مظاہرے میں شامل ہونے والا اور ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والا یہ متوسط طبقہ اس مرتبہ جے این یو اور علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس کے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے سے بھی گریز کیا۔ اس طبقہ نے شاہین باغ اور ہندوستان کے دوسرے مقامات پر مخالف شہریت ترمیمی قانون احتجاج سے بھی بڑی بے شرمی کے ساتھ خود کو دور رکھا۔ 25 مارچ 2020 کو جب مودی حکومت نے اچانک ملک میں لاک ڈاون کا اعلان کیا اس کے بعد لاکھوں کی تعداد میں ورکروں نے جس انداز میں پیدل سفر کرتے ہوئے ہزاروں میل کا سفر طے کیا اور اپنے گھر پہنچے اس دوران ان مزدوروں پر کیا گذری سارا ہندوستان جانتا ہے لیکن اس گھڑی میں بھی متوسط طبقہ نے کوئی جنبش نہیں کی۔ ہریانہ اور کرناٹک کے ٹریڈ یونین احتجاجی مظاہروں کو بھی اس طبقہ نے نظرانداز کردیا۔ پولیس فائرنگ اور انکاؤنٹر بھی متوسط طبقہ کے ضمیر کو جھنجوڑنے میں ناکام رہے جبکہ سماجی جہد کاروں، ادیبوں، صحافیوں اور شاعروں کی گرفتاریوں یا پھر حزب اختلاف کے قائدین کو ہراساں و پریشان کئے جانے کے باوجود بھی متوسط طبقہ کے ماتھے پر شکن تک نہیں آئی۔ ایک ایسے وقت جبکہ سارا ملک ارکان پارلیمنٹ، ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کا مشاہدہ کررہا ہے۔ تجارت کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ انتخابی بدعنوانیاں عروج پر پہنچ گئی ہیں انتخابی قواعد عجیب و غریب بنائے جارہے ہیں۔ مغربی بنگال اور پڈوچیری انتخابات اس کی مثالیں ہیں اس کے باوجود یہ متوسط طبقہ کوئی احتجاج نہیں کرتا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے متوسط طبقہ نے ان تین بندروں کی اخلاقی کہانی کو بڑی سنجیدگی سے لیا ہے جس میں ایک بندر اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوتا ہے اور دوسرا بندر اپنے کانوں میں روئی ٹھونسا ہوا ہوتا ہے اور تیسرا بندر اپنے ہونٹوں کو بند رکھے ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ برا نہ دیکھو، برا نہ بولو، برا نہ سنو مجھے ڈر ہے کہ لاپتہ متوسط طبقات کہیں جمہوریت کی موت کے عمل کو تیز نہ کردے۔