مجلس کے بشمول کئی جماعتیں غیر جانبدار!این ڈی اے یا انڈیا میں شمولیت سے گریز یا مدعو نہیں؟

   

حیدرآباد۔19جولائی (سیاست نیوز) ملک بھر کی سیاسی جماعتیں موافق بی جے پی یا مخالف بی جے پی کی حیثیت سے اپنے سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نظریات کو واضح کردیا ہے لیکن جنوبی ہند کی دو تلگو ریاستوں میں برسراقتدار سیاسی جماعتوں نے جو کہ عمومی طور پر موافق مرکزی حکومت ہیں نے این ڈی اے کے اجلاس میں شرکت نہ کرتے ہوئے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ وہ این ڈی اے کا حصہ نہیں ہیں لیکن وائی ایس آر سی پی ‘ بھارت راشٹر سمیتی ‘ مجلس اتحاد المسلمین ‘ بہوجن سماج پارٹی ‘ اے آئی یو ڈی ایف اور تلگو دیشم کے علاوہ کوئی ایسی سیاسی جماعت باقی نہیں رہی جو این ڈی اے یا INDIA کے ساتھ نہیں ہیں۔ ریاست تلنگانہ میں بھارت راشٹرسمیتی اور پڑوسی ریاست آندھراپردیش میں وائی ایس آر سی پی کے علاوہ مجلس اتحاد المسلمین موافق حکومت یامخالف حکومت محاذ کا حصہ نہیں ہیں جبکہ اترپردیش میں بہوجن سماج پارٹی دونوں محاذوں میں کسی ایک محاذ کا حصہ نہیں ہیں اسی طرح آندھراپردیش میں تلگو دیشم پارٹی نے بھی دونوں محاذ کے اجلاس میں کسی ایک محاذ کے اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی ۔ آسام میں بدرالدین اجمل کی سیاسی جماعت اے آئی یو ڈی ایف نے بھی دونوں محاذوں سے خود کو دور رکھا ہوا ہے۔مجلس نے بھی این ڈی اے اور INDIA سے مساوی دوری بنائے رکھی ہے جبکہ ان جماعتوں میں کئی سیاسی جماعتوں نے سابق میں کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے میں شامل رہی ہیں لیکن اب یہ جماعتیں موافق بی جے پی حکومت اور مخالف بی جے پی حکومت دونوں ہی اتحاد سے دور رہتے ہوئے خود کی علحدہ شناخت ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جبکہ آندھراپردیش میں برسر اقتدار وائی ایس آر سی پی نے گذشتہ 9برسوں کے دوران بی جے پی حکومت کی بیشتر تمام پالیسیوں کی تائید کرنے کے علاوہ بلوں کو پاس کروانے میں مدد کی اسی طرح تلنگانہ میں برسر اقتدار بھارت راشٹرسمیتی نے بھی 2014 کے بعد سے اب تک بھی مرکزی حکومت کے بیشتر تمام فیصلوں کی حمایت کرتے ہوئے ان کی تائید کی اور کئی بلوں کو پاس کروانے کے لئے راست یا بالواسطہ مدد کی۔ اے آئی یو ڈی تلگو دیشم پارٹی سابق میں این ڈی اے کا حصہ رہنے کے ساتھ ساتھ گذشتہ کئی ماہ سے دوبارہ این ڈی اے میں شمولیت کے سلسلہ میں مذاکرات میں مصروف دکھائی دے رہی تھی اور این ڈی اے میں شامل جنا سینا پارٹی سے اتحاد کا اعلان تو کرچکی ہے۔ اسی طرح بہوجن سماج پارٹی نے اترپریش ریاستی اسمبلی انتخابات کے دوران بی ایس پی کے کردار سے سب واقف ہیں اوریہ بھی جانتے ہیں کہ کس طرح سے بی جے پی کو اقتدار پر لانے میں بی ایس پی نے مدد کی تھی۔ مجلس اتحاد المسلمین پر بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی ’بی‘ٹیم ہونے کا کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتیں مسلسل الزام عائد کر رہی ہیں جبکہ اے آئی یو ڈی ایف نے آسام کے علاوہ بعض دیگر مقامات میں بی جے پی کی مدد کی ہے اور ان پر بھی کئی الزامات عائد کئے جا رہے ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مذکورہ سیاسی جماعتیں INDIA کے ساتھ نہیں ہیں تو وہ کس کے ساتھ ہوسکتی ہیں اسی لئے INDIA میں شامل سیاسی جماعتوں کے قائدین ان سیاسی جماعتوں کو اپنے محاذ میں شامل کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں جبکہ اس محاذ میں کئی ایسی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو سابق میں کھل کر بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے کا حصہ رہی ہیں۔ مذکورہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے دونوں سے دور رہنے پر سیاسی مبصرین کا کہناہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے موقف میں آئندہ چند ہفتوں کے دوران تبدیلی آئے گی اور اگر اس میں تبدیلی نہیں آتی ہے تو ان سیاسی جماعتوں کے قائدین سے عوامی سطح پر سوال کئے جاسکتے ہیں۔ م