سید خالد محی الدین اسد
نفسا نفسی کے اس دور میں اگر کوئی شخصیت اپنی ملت کی بربادی پر آنسو بہاتی ہے، اسے بربادی سے بچانے کی تدبیریں کرتی ہے۔ نوجوانان ملت کے بارے میں فکرمند رہتی ہے تو سمجھئے کہ اس شخصیت پر اللہ عز و جل کا خصوصی رحم و کرم ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے محبوب بندوں میں شمار کرتے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں بالخصوص حیدرآباد کے مسلمانوں کے بارے میں ہمیشہ فکر میں غرق رہنے والی چند ایک شخصیتوں میں مینجنگ ایڈیٹر سیاست جناب ظہیرالدین علی خاں مرحوم بھی شامل تھے۔ راقم الحروف نے انہیں جب بھی دیکھا ملت کی فکر میں غرق دیکھا، جب بھی ان سے بات کی ہماری نوجوان نسل کے بہتر و روشن مستقبل کے منصوبوں پر بات کرتے سنا، جب بھی انہیں سرگرم دیکھا تو ضرورت مند مرد و خواتین طلباء و طالبات کی مدد میں سرگرم دیکھا۔ یقیناً ظہیر صاحب کے اس دارفانی سے کوچ کرجانے سے ایسے ہزاروں طلبہ ہیں جو خود کو یتیم محسوس کر رہے ہیں۔ ایسی بے شمار بیواؤں ہیں جن میں بے سہارا ہونے کا احساس شدت اختیار کرگیا ہے کیونکہ وہ غریب بیواؤں کو نہ صرف سیاست ملت فنڈ فیض عام ٹرسٹ اور دوسرے فلاحی اداروں سے امداد دلاتے بلکہ خود بھی ان بیواؤں اور ان کے بچوں کے حق میں دست تعاون دراز کرتے ۔ ظہیر صاحب کو اللہ عز و جل نے جہاں ملت کی مدد کا ذریعہ بنایا تھا وہیں ان کے دل میں یتیموں و یسیروں کے تئیں محبت و شفقت کوٹ کوٹ کر بھردی تھی ۔ وہ یتیم و یسیر بچوں کو دیکھ کر تڑپ جاتے تھے جس کا اندازہ ایم ایس ایجوکیشن اکیڈیمی کی ہمت ڈے تقریب میں ان کی تڑپا دینے والی تقریر اور دوران تقریر ان کا ایک معصوم بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے سے لگایا جاسکتا ہے۔ ہمت ڈے تقریب میں ہزاروں کی تعداد میں یتیم و یسیر بچوں کو دیکھ کر ان ہیں اپنے دور یتیمی کی یادیں تازہ ہوگئیںاور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ایک مضبوط ارادوں بلند عزائم کی حامل شخصیت نہیں بلکہ ایک معصوم بچہ اپنی ماں سے محرومی کی داستان الم بیان کر رہا ہو۔ ظہیر صاحب کے اس رونے نے شہر حیدرآباد ہی نہیں تلنگانہ اور دنیا کے کونے کونے میں بے شمار قارئین سیاست کو رلادیا ۔ اس محفل میں انہوں نے تجویز پیش کی کہ سید خاندانوں کے بچوں کیلئے علحدہ فنڈ قائم کیا جانا چاہئے۔ شہر کا کوئی ایسا گھر نہیں تھا جس میں ظہیر صاحب کی یاد میں آنسو نہ بہائے گئے ہوں۔ ہر کسی کے لب پر یہی جملہ تھا ’’بہت اچھے تھے ، بہت اچھے تھے۔ ظہیر صاحب کے ساتھ تقریباً 15 برسوں سے کام کرنے کا راقم الحروف کو اعزاز حاصل رہا ، وہ جھوٹوں ، دھوکہ بازوں ، ملت فروشوں ، مفاد پرستوں ، خود غرضی کی بیماری میں مبتلا افراد کو سخت ناپسند کرتے تھے ۔ اکثر وہ کہتے ’’مجھے جھوٹ پسند نہیں‘‘۔ سب اللہ کرنے والا ہے ، اللہ کا نام لو اور آگے بڑھو۔ آپ کو بتادوں کہ میرے والد محترم سید احمد محی الدین افسر مرحوم اسٹیٹ سماچار خبر رساں ایجنسی چلایا کرتے تھے اور اسی سلسلہ میں دفتر روزنامہ سیاست میرا آنا جانا لگا رہتا تھا ۔ ایک مرتبہ خبریں پہنچاکر دفتر روزنامہ سیاست کے باہر ٹھہرا تھا کہ ظہیر صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ اس طرح جب بھی ان سے ملاقات ہوتی وہ خیر خیریت دریافت کرتے اور ملی مسائل پر بات کرتے ، وہ وقت بھی آیا جب انہوں نے مجھے سیاست ہیلپ لائین میں کام کرنے کی پیشکش کی ، جسے میں نے بخوشی قبول کرلی ۔ ہیلپ لائن میں اس وقت مرکزی حکومت کی اسکالرشپس کیلئے طلباء و طالبات اور اولیائے طلباء کی رہنمائی کرتے ہوئے ان کی درخواستیں آن لائین داخل کی جاتی تھیں، پھر ریاستی حکومت کی اسکالرشپس کا کام شروع کیا گیا ۔ اس وقت غریب و ضرورت مند طلبہ کی مدد کیلئے کوئی سنٹر نہیں تھا ، اس وقت محبوب حسین جگر ہال طلباء و طالبات اور مرد و خواتین سے کھچا کھچ بھر جاتا تھا ۔ لوگوں کو جگہ نہ ملنے کے باعث باہر ٹھہرنا پڑتا تھا ۔ ظہیر صاحب ریاستی حکومت کی جانب سے غریب لڑکیوں کی شادیوں کیلئے مخصوص اسکیم ’’شادی مبارک‘‘ میں بھی خصوصی دلچسپی لیتے تھے، انہیں اندازہ تھا کہ غریب مسلم ماں باپ کو اپنی بیٹیوں کی شادیوں کیلئے کس طرح مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ انہوں نے سیاست ملت فنڈ کے ذریعہ معذورین و بیواؤں اور لاکھوں طلبہ کی مالی مدد کروانے کا فریضہ بہتر اور مثالی انداز میں انجام دیا ۔ معذورین کو سرکاری وظیفہ دلانے کی خاطر وہ مجھ کو مشورہ دیتے کے سلطان شاہی کے سماجی کارکن محمد سلیم سے رجوع ہوں اور معذورین کی فائلیں ان کے حوالے کریں تاکہ ان مرد و خواتین کو معذور ہونے کے سرٹیفکٹس مل سکیں۔ وہ چیف منسٹر س اوورسیز اسکالرشپس کے بارے میں بھی اپ ڈیٹ رہا کرتے تھے ۔ یہی نہیں بلکہ ایسے بے شمار لڑ کے لڑکیاں ہیں جن کے امریکہ ، برطانیہ اور دوسرے ملکوں کی باوقار یونیورسٹیز میں داخلوں کو یقینی بنانے اور پھر ان کیلئے فضائی ٹکٹس کے انتظامات بھی کئے۔ اس معاملہ میں وہ سکریٹری فیض عام ٹرسٹ جناب افتخار حسین سے طلبہ کو بطور خاص رجوع کراتے۔ ہیلپ لائن اور ہیلپ ڈیسک میں میرے ساتھ سید رضوان ، فرح، شاذیہ ، ملک منظور عوام کی خدمات انجام دیتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ۔ طب یونانی پر بھی ظہیر صاحب کا بہت بڑا احسان ہے ۔ بی یو ایم ایس میں داخلوں کو یقینی بنانے اور تمام سیٹوں کو پر کروانے کی خاطر سیاست کے ذریعہ انٹرنس کلاس چلاتے، مرحوم حکیم غوث الدین اس کوچنگ کے کوآرڈینیٹر ہوتے تھے، ظہیر صاحب نے ان کے ساتھ مجھے اور سید رضوان کو بھی جوڑدیا تھا۔ یہ کوچنگ صبح 7 بجے تا 11 بجے دن تک عابد علی خاں آئی اسپتال میں دی جاتی اور جب کونسلنگ کا وقت آتا تب بسوں کا انتظام کرتے ہوئے لڑ کے لڑکیوں کو وجئے واڑہ پہنچایا جاتا۔ تلنگانہ تحریک اپنے نقطہ عروج پر تھی تب تناؤ کا ماحول تھا ایسے میں چارخصوصی بسوں کا انتظام کرتے ہوئے انہوں نے بی یو ایم ایس کونسلنگ کیلئے طلباء و طالبات کو وجئے واڑہ روانہ کیا تھا اور کہا تھا ڈرنے کی ضرورت نہیں ، اللہ بہت بڑا ہے ۔ ہر بس کا انہوں نے ایک نگران مقرر کردیا تھا ۔ ایک بس کی نگرانی پر مجھے مامور کیا ، ایک بس کا سید رضوان کو نگران بنایا ، فرح ، ذیشان دوسری دو بسوں کے نگران بنائے گئے ۔ ظہیر صاحب غریب و ضرورت مند طلبہ کی مدد میں ہمیشہ آگے رہتے ۔ کئی ایسی لڑکیاں ، لڑکے ہیں جو آج ایم بی بی ایس ایم ڈی اور بی یو ایم ایس ایم ڈی کرچکے ہیں ۔ ایم ڈی یونانی میں داخلوں کی کوچنگ پر بھی وہ خصوصی توجہ دیتے۔ اس سلسلہ میں اوما کے ذمہ داران ڈاکٹر شکیب اور ڈاکٹر رحمن کی خدمات حاصل کرتے۔ واضح رہے کہ سیاست کے زیر اہتمام رشتوں کا جو دوبدو پروگرام ہوتا ہے اس کے اہتمام میں ان کا اہم کردار ہوتا ۔ اب تک سیاست کے 128 دوبدو پروگرام ہوچکے ہیں۔ 128 واں پروگرام دفتر سیاست کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوا اور وہی دوبدو پروگرام ان کی زندگی کا آخری دوبدو پروگرام ثابت ہوا۔ دوبدو پروگرام کے انعقاد میں وہ ایس اے ایمپرئیل و مغل کیٹررس کے جناب معین الدین کی بہت ستائش کرتے تھے ۔ ریگل ، رائل ، ریجنسی ، ریڈ روز جیسے شادی خانوں میں دوبدو کا اہتمام کرواتے۔ والینٹرس میں ایک جوش و ولولہ پیدا کرتے ۔ لڑکیوں کے فکرمند والدین سے ملاقاتیں کرتے ، انہیں حوصلہ دلاتے۔ سیاست میٹرامونیل کے ذریعہ بھی وہ قوم و ملت کی خدمت میں سرگرداں رہتے۔ پولیس میں نوجوانان ملت کی بھرتی کیلئے ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ کورونا کی عالمی وباء کے دوران جو بھی ان سے مدد کیلئے رجوع ہوتے ، ان کے مکانات پر مجھے اور شیخ احمد کے ذریعہ اناج ادویات پہنچاتے۔ ترنم میڈم کو طلب کر کے اناج کی پیاکنگ کرواتے ، کپڑا بینک کیلئے کینیڈا وغیرہ سے کنٹینر آتے تو فوری مجھے اور فہیم انصاری کو طلب کر کے کنٹینر کا سامان بحفاظت ان لوڈ کروانے کی ہدایت دیتے اور پھر مشیرآباد کے نوجوانوں کی ایک ٹیم اس سامان میں مردانی ، زنانی اور بچکانی ملبوسات علحدہ علحدہ کرتے ۔ ظہیر صاحب بعض مرتبہ رات دیر گئے وہاں پہنچ جاتے اور کام کا جائزہ لیتے ۔ کام چوری کو وہ ہرگز برداشت نہیں کرتے تھے ۔ غرض ملت کی گکر میں بہت غرق رہنے والی یہ شخصیت اگرچہ ظاہری طور پر ہم سے جدا ہوگئی ۔ ایک غم دے گئی لیکن ایک پیغام بھی دے گئی کہ ملت کیلئے زندہ رہو اور ملت کیلئے اپنی زندگی قربان کردو۔