مجھے معاف کیجئےججس نے تنازعات کا دروازہ کھولدیا

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

آج کل یہ کہا جارہا ہے کہ ججس کی وجہ سے ملک میں کئی ایک مسائل اور تنازعات پیدا ہوئے اور ہورہے ہیں جس کے باعث معاشرہ میں بے چینی کی ایک لہر پیدا ہوگئی ۔اس میں ملک کے ماہرین قانون نے بھی واضح طورپر کہدیا ہے کہ چند ججس کی ناعاقبت اندیشی کا خمیازہ سارے ملک کو اور عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ بہرحال میرے یہاں ڈھیر سارے قوانین کی تشکیل یا قانون سازی سے متعلق نقطہ نظر ہے ۔ میں نے ہمیشہ وزارت قانون کے مسودہ سازوں پر زور دیا کہ وہ بل کو جامع ، مختصر ، کھرا کھرا اور واضح رکھیں۔ ایسا ہی ایک قانون عبادت گاہوں سے متعلق ( خصوصی دفعات ) قانون Places of Worship (Special Provisions)ایکٹ 1991 ہے ۔ میری نظر میں یہ صرف 8 دفعات پر مشتمل اور بالکل واضح ہے ۔ اس قانون کا ایک مقصد تھا اور وہ عبادت گاہ کے کردار کو منجمد کرنا یعنی ناقابل تبدیل بنانا تھا ۔ باالفاظ دیگر عبادت گاہوں کا جو موقف 15اگسٹ 1947 ء کو تھا اسے جوں کا توں برقرار رکھنا تھا یا 15 اگسٹ 1947 ء کو عبادت گاہوں کا جو موقف تھا اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آزادی کی صبح ( 5 اگسٹ 1947 ء ) جو عبادت گاہیں جن حالت میں تھیں ان کے موقف کو کسی بھی طرح تبدیل نہیں کیا جائے گا ۔ یہ بالکل واضح کردیا گیا کہ اس معاملہ میں کوئی ’’اگر مگر ‘‘ نہیں چلے گا اور اس قانون پر اور اس کی دفعات پر بنا کسی تعصب و جانبداری کے عمل آوری کی جائے گی ۔ میں ہر ہندوستانی پر زور دیتا ہوں کہ وہ مذکورہ قانون کی دفعہ 3 اور دفعہ 4(1) کا ضرور مطالعہ کرے جوکہ ذیل میں دیا جارہا ہے ۔
دفعہ 3 صاف طورپر عبادت گاہوں کے موقف تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیتی ، اس دفعہ میں واضح طورپر کہا گیا کہ کوئی بھی فرد کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ یا کوئی بھی طبقہ مختلف طبقات کی عبادت گاہوں کو اپنے مذہب یا اپنے طبقہ کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کرے گا ۔ دفعہ 4 کے مطابق بعض عبادت گاہوں کے مذہبی کردار اور عدالتوں کے دائرہ اختیار کے بارے میں اعلان وغیرہ ۔ (1) یہاں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ 15 اگسٹ 1947 ء کو عبادتگاہوں کا جو موقف اور مذہبی کردار تھا وہ کردار جاری رہے گا ۔ ہاں اس معاملہ میں صرف ایک عبادت گاہ کو استثنیٰ دیا گیا جسے سب ایودھیا میں واقع رام جنم بھومی ۔ بابری مسجد کے نام سے جانتے ہیں کیونکہ اس کی ملکیت سے متعلق مقدمہ زیردوران تھا ۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سطور بالا میں عبادت گاہوں کے موقف سے متعلق جس قانون 1991 کا اہم نے ذکر کیا اس قانون کے پیچھے نیت ارادے کئے تھے ۔ اس بارے میں آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اس قانون کی نیت ارادوں ، مقصد ، روح اور دائرہ کار کو وسیع پیمانہ پر قبول کیا گیا ۔ میرے خیال میں اس ایکٹ نے اپنا مقصد حاصل کیا کیونکہ 30 برسوں سے عبادت گاہوں سے متعلق مسائل اور تنازعات اُٹھائے نہیں گئے تھے ، ماحول پرسکون تھا ۔ بڑے پیمانے پر لوگوں نے اس بات کو قبول کیا کہ ایک مندر مندر ہی رہے گا اور ایک مسجد ، مسجد ہی رہے گی ۔ اسی طرح ایک گرجا گھر ، گرجا گھر کی شکل میں ہی باقی رہے گا ۔ ایک گردوارہ ، گردوارہ کے طورپر برقرار رہے گا ۔ یہودیوں کی عبادت گاہ بھی یہودی عبادت گاہ ہی رہے گی اور ہر مذہبی مقام اس کردار کا حامل رہے گا جو 15 اگسٹ 1947 ء کو تھا اس کردار میں کوئی تبدیلی نہیں آئیگی ۔
بدقسمتی سے اس قانون کے کام سے متعلق بہت کم معلومات موجود ہیں۔ PRISM ( ایک پارلیمانی تحقیقی سہولت ) سے پوچھے گئے سوالات میں انکشاف کیا گیا کہ اس وقت کی حکومت نے ایکٹ کے تحت گرفتاریوں اور قانونی کارروائیوں کے بارے میں تین موقعوں پر صاف صاف جواب دیا کہ اس قانون کے بارے میں جو بہتر بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے حکومتوں نے اس ایکٹ کو نظرانداز کیا ۔ اس تعلق سے ہم عدالتوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ مثال کے طورپر 28 اکٹوبر 2020 ء کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک رٹ پٹیشن داخل کی گئی جس پرجو احکامات دیئے گئے ان میں یہ اعلان کیا گیا کہ Places of Worship (Special Provisions) Act, 1991 کی دفعات 2 ، 3 اور 4 باطل اور غیرآئینی ہیں جب تک کہ وہ وحشی حملہ آوروں کے ذریعہ غیرقانونی طورپر بنائی گئیں عبادت گاہوں کی توثیق کرنا چاہتے ہیں خاص طورپر نوٹ کریں کہ دفعہ3 اور 4 قانون کا بنیادی حصہ ہیں جبکہ دفعہ 3 اور 4 کی عدم موجودگی میں اس قانون میں کچھ باقی نہیں رہ جاتا ۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ ان دفعات کو اس بنیاد پر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا کہ یہ (دفعات 3 اور 4 ) دستور ہند کی دفعات 14 ، 15 ، 21 ، 25 ، 26 اور 29 کی خلاف ورزی کرتے ہیں یعنی اس کے مغائر ہیں۔ وہ ہندوؤں ، جینوں ، بدھسٹوں اور سکھوں کے مذہبی مقامات کو قانون کے مطابق بحال کرنا چاہتا تھا ۔ واضح رہے کہ یہ رٹ پٹیشن سال2020 ء سے زیرالتواء ہے ۔
گیان واپی تنازع : سال 2023 ء میں سپریم کورٹ نے انجمن انتظامیہ مسجد وارنسی کی انتظامی کمیٹی کی جانب سے دائر کردہ Special Leave Petition قبول کی ، اس SLP کے ذریعہ الہٰ آباد ہائیکورٹ کے جاری کردہ حکم مورخہ 3 اگسٹ 2023 ء کو چیلنج کیا گیا تھا ۔ ڈسٹرکٹ جج نے اس علاقہ کے محکمہ آثار قدیمہ (آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا ) کے ذریعہ سروے کروانے کی ہدایت دی جس میں گیان واپی مسجد موجود ہے۔ ہائیکورٹ نے اپیل کو خارج کردیا جس پر درخواست گذار عدالت عظمیٰ سے رجوع ہوئے ۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکمنامہ مورخہ 4 اگسٹ 2023 ء میں کچھ یوں کہا ’’ہم ہائیکورٹ کے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے سے قاصر ہیں خاص طورپر دستور کی دفعہ 136 کے تحت دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے … اور پھر سالیسٹر جنرل کے بیان کو اور اُن کے نقطہ نظر یا دلائل کو ریکارڈ کیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ساری کارروائی ( سروے ) کسی بھی غیرجارحانہ طریقہ کار کے ذریعہ ختم کی جائے گی جسے ( طریقہ کار کو ) آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ذریعہ اختیار کیا جائے گا ۔اس طرح ان طریقوں سے تنازعات کا دروازہ کھولا گیا باالفاظ دیگر پنڈورا باکس کھولدیا گیا ۔
عدالت نے درخواست گذار کی نیت اس کے ارادوں اور اغراض و مقاصد کے بارے میں جاننے کی زحمت گوارا نہیں کی جس نے دیوانی مقدمہ 18 بابتہ سال 2022 ء دائر کیاتھا ۔ اس درخواست میں درخواست گذار نے یہ التجاء کی تھی کہ وہ دیوی دیوتاؤں کی اُن مورتیوں کی پوجا کرنے کا مستحق ہے جو مبینہ طورپر گیان واپی مسجد کی عمارت میں موجود ہیں ۔ درخواست گذار کی صاف صاف کوشش یہی تھی کہ ان ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کی پوجا کرے جو مبینہ طورپر مسجد میں موجود ہیں۔ اگر اُنھیں رسوم اور بھگوانوں کی پوجا کرنے کی اجازت دیں تو اس سے مسجد کو کم از کم جزوی طورپر ایک مندر میں تبدیل کریں گے ۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا مدعی علیہان کے مقصد اور مقدمہ کے ذریعہ عبادت کی اجازت دینے کے نتائج کو دیکھنا مشکل تھا؟ میرے خیال میں سپریم کورٹ کو دستور کی دفعہ 41 کے تحت حاصل اپنے اختیارات کو مکمل انصاف کرنے کیلئے استعمال کرنا چاہئے تھا ۔ اس مقدمہ کو خارج کردینا چاہئے تھا اور واضح طورپر یہ کہنا چاہئے تھا کہ تیس برسوں تک اس قانون کا احترام کیا گیا اور ہر قیمت پر اس کا احترام برقرار رہنا چاہئے ۔ آپ اور ہم سب نے دیکھا کہ گیان واپی سے متعلق حکم کے بعد متھرا کی عیدگاہ مسجد اُترپردیش کے سنبھل کی شاہی جامع مسجد ، دہلی کے قطب مینار کامپلکس اور اجمیر کی درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے تنازعات اُٹھائے گئے ۔ یہ سلسلہ کہاں ختم ہوگا اس کا کسی کو پتہ نہیں۔ گیان واپی سے متعلق حکم کے نتائج بدنام زمانہ اے ڈی ایم جیل جبلپور کی طرح برآمد ہوں گے ۔