مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی میری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی

   

ڈاکٹر محمد سراج الرحمن فاروقی
عالم اسلام نہایت کسم پرسی کے حالات سے گذر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے بلکہ یہ حقیقت ہے کہ اسلام دشمن عناصر گویا عالمی طور پر ہو یا ملکی یا مقامی طور پر اسلام کی شان و شوکت کو داغدار بنانا چاہتے ہیں بلکہ اس کو مقید اور زنجیروں میں جکڑنا چاہتے جس کے لئے ایڑی چوٹی کا زور متحدہ اور منظم طریقہ سے لگا رہے ہیں۔ ان میں چاہے بنیاد پرست ہوں، نصرانی ہوں یا زعفرانی تنظیمیں ہوں ان میں آپس میں خاص ربط و ضبط ہوتا ہے، خیالات اور سازشوں کا تبادلہ اور Action Plan تیار کیا جاتا ہے اس کو عملی جامہ پہنانے کی تدابیر اور باضابطہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے لیکن کئی مرتبہ یہ سازشیں انہیں پر الٹ دی جاتی ہیں چونکہ جس دین اسلام کو یہ مٹانا یا ختم کرنا چاہتے ہیں اس دین حق کی حفاظت کی ذمہ داری خود رب العالمین لے چکا ہے۔

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے عالمی سطح پر یہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہتے تھے وہاں اسلام تیزی سے پھیلتا گیا جس کی زندہ مثال فرانس میں صدر ائیمانسول ملعون کی زیر قیادت شان اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں بنائے گئے کارٹونس کی سرکاری عمارتوں پر نمائش کے بعد فرانس میں سیرت طیبہ کی اتنی کتابیں مانگی اور خریدی گئی لوگ ٹوئٹ کے ذریعہ پیغمبرؐ اسلام کی سیرت کی جانکاری کے لئے بے قرار اور دلچسپی ظاہر کرنے لگے۔ اب یہی صدر فرانس بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر کئی اسلامی اسکالرس پر پابندی لگائی،؎ مساجد اور مسلم تنظیمیں اس کو کھٹکنے لگی انہیں مہربند کردیا گیا، لیکن یہ ظاہری طور پر کامیاب ہوتا نظر آتا ہے لیکن 60 لاکھ کی مسلم آبادی رکھنے والے ملک فرانس میں اسلام تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔ ایمانیول اسلام پر پابندی لگاتا ہوا آئندہ ہونے والے انتخابات کی تیاری میں کامیابی کے خواب دیکھتے نظر آتا ہے، لیکن اس گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حشر تو تاریکی میں ڈوبتا نظر آرہا ہے، اس کا ضرور ابوجہل، ابولہب جیسا عبرتناک حشر ہوگا۔ تاریخ بتائیگی کہ معاملہ 9/11 کو امریکہ کے ٹوئین ٹاورس گرانے کا ہویا، ڈنمارک میں کی گئی گستاخی کا، یا چارلی ہیبڈو کا، یا نیوزی لینڈ میں مصلیوں و مساجد پر کی گئی اندھادھند فائرنگ کا یا حالیہ فرانس کی سرکاری کالی کرتوتوں کا ہر بار نتیجتاً اسلام بڑے زور و شور سے پھلتا پھولتا نظر آیا ہے۔ جیسے یہ پیغمبر اسلام کی یہ پیشن گوئی کہ قیامت سے پہلے ہر کچے پکے مکان میں، خشکی اور تری میں اسلام کا غلبہ ہوکر رہے گا۔

باطل سے ڈرنے والے آئے آسماں نہیں ہم
سوبار کرچکا ہے تو امتحان ہمارا
ادھر ہمارے اپنے ہندوستان میں جس کی آزادی میں مسلمانوں کا خون اس کی مٹی میں ہے۔ جس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے بچانے یہاں کہ حکمراں چاہے شیر میسور ٹیپو سلطان ہو، یا بنگال کے نواب سراج الدولہ یا پھر دکن کے نظام الملک میر عثمان علی خان نے اپنی جان، مال عزت آبرو لٹادی وہیں انگریزوں کی جوتی چاٹنے والی تنظیمیں آج آزاد بھارت میں وہی مسلم اقلیت کے خلاف منظم سازش رچی ہیں۔ ایک تو ایک ایجنڈہ ظاہری ہتھکنڈہ ان کا سی اے اے، این آر سی، این آر پی کے ذریعہ خوفزدہ کرنا، یا گاوکشی کے قانون کے ذریعہ مسلم قوم پر رعب جمانا، یا چرم کے کاروبار پر روک اور کمزور کرکے یا فسادات (دہلی) کے ذریعہ ان کو مفلوک الحال کرنا معاشی تباہی مچانا، یا لو جہاد جیسے قوانین کالایا جانا، آرڈننس لاکر بے نامی اسکامس کے بہانے مسلم رہنماؤں کو مقید کرنا، جائیدادیں قرق کرنا، اس کے علاوہ اندرونی خفیہ ایجنڈہ، طلاق کے قوانین کے ذریعہ شریعت محمد میں بالراست دخل اندازی، بابری مسجد کی شہادت کے معاملے عدالت عالیہ کے ذریعہ اپنی پسند کا فیصلہ حاصل کرنا۔ پھر ہند میں یکساں سیول کو مزید گراں یہ کہ بھارت دیش کو دو برسوں میں ہندو راشٹر بنانا چاہتی ہے۔ اس کے لئے ہر ممکن طاقت کا استعمال کرنا وغیرہ ہیں۔ لیکن یہ ہمارا یقین ہے کہ جب تک امت مسلمہ اپنے منصبی فریضہ، دعوت دین حق کی محنت سے جڑی رہے گی ملت کے ذمہ دار بلکہ ہر کلمہ گو دعوت دین کی محنت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیگی رب العالمین کی راست مدد و نصرت ہمارے ساتھ رہے گی لیکن افسوس کے بقول علامہ اقبال ؒ
محبت کا جنوں بانی نہیں ہے
مسلمانوں میں خون باقی نہیں ہے
صفیں کج دل پریشاں، سجدے بے زوق
کے جدبہ اندرون باقی نہیں ہے
علامہ اقبال ؒ رب العالمین سے دعا کرتے ہیں کہ
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے
یہاں یہ بات کی میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں، تاریخ اسلام اور پیغمبر اسلام کی حکایات سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ قوموں کا عروج و زوال کا فلسفہ یہ ہے کہ قوموں کا عروج اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک وہ زندگی کے ہر میدان میں اسلامی قوت سے لیس ہوکر دشمن سے مقابلہ کرتی رہتی ہے اور وہ جب عیش و عشرت میں مبتلا ہو جاتی ہے تو سمجھ لو کہ قوم کا زوال شروع ہوگیا۔آج ہم سب دیکھ رہے ہیں ہماری زندگی بدل گئی ہے عشرت کدے میں اٹھا ہمارا ہر فرد عیش عیاری کی زندگی کو مقدم رکھنا چاہتا ہے۔ ہر کلمہ گو چھوٹا، بڑا یوروپی نظریات کا دلدادہ ہوگیا ہے۔ یوروپی نظریات، تہذیب اور تجارت اور صنعت کا طلب گار نظر آتا ہے۔ جائز، ناجائز، حلال، حرام، اچھے برے، حق نا حق کی تمیز کو بالائے طاقت رکھ کر دنیاوی لالچوں کا شکار نظریے اپنا رہا ہے۔
مسلمان اور ذلیل، مسلمان اور غلام یہ کیوں کر ہوا، ہمیں ماننا پڑے گا ہمارے مسلمان ہونے کا دعویٰ کھوکھلا ہے۔ ہم نے دین سے دوری دین سے بے زاری، رہن سہن میں دینیت کو اپنایا سب سے زیادہ دعوت دین حق محنت جس کی ہمارے کندھوں پر ناقابل انکار ذمہ داری دے کر بھیجے گئے اس سے بے اعتنائی، لاپرواہی، غفلت ہم نے برتی، تبھی تو رب العالمین کی مدد ہم سے دور ہوگئی، نفرت الہیٰ چھین لی گئی۔ آج بھی ملت اسلامیہ اپنی منصبی ذمہ داری نبھائیگی، ہماری سونچ وچار اور انداز بہم بدلیں گے، نظریاتی فکری، علمی عملی انقلابی کا سامان تلاش کرتے ہوئے اپنائیں گے۔ ہمارے وطن سے ناپاک سازشیں رچنے والی طاقتوں کا منہ کالا ہوگا۔یہی دعوت دین حق کی محنت ان کو ایک اللہ کی گواہی پیغمبرؐ اسلام کی رسالت پر مائل کریگی، ہند میں پائیدار امن قائم ہوگا۔ رضائے الہی نصیب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمارا کھویا وقار بحال فرمائے۔ دعوت دین حق کی محنت کے لئے ہمارا انتخاب فرمایئے۔ آمین ۔توائے مسافر شب ! خود چراغ بن اپنا : کر اپنی رات کو داغ جگر سے نورانی