محمد رحیم الدین انصاری ، ظہیر الدین علی خاں اور دیگر کا خطاب
حیدرآباد 13؍فروری ( راست ) ۔ شاعر وادیب محبوب خان اصغر کے تجزیاتی وتعارفی مضامین کے مجموعے ’’لہجے صدائیں، تنویریں‘‘ کی رسم اجراء 7؍فروری 2020میڈیا پلس گن فاؤنڈری میں نجام دی گئی کتاب کی رسم اجراء جناب ظہیر الدین علی خان منیجنگ ایڈیٹر روزنامہ سیاست حیدرآباد نے انجام دی۔ صدارت پروفیسر قطب سرشار صدر اکیڈیمی نے کی ۔ مہمانان مولانا محمد رحیم الدین انصاری صدر تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈیمی، ڈاکٹر محسن جلگانوی، اسلم عمادی، محمد عبدالرحیم خان معتمد انجمن ترقی اردو نے کتاب پر اظہار خیال کیا۔ رحیم الدین انصاری نے محبوب خان اصغر کی شاعری نثر اور شخصیت کے حوالے سے ایک سیر حاصل مضمون پیش کیا ۔ انہوں نے مذکورہ کتاب میں ہندوستان اور پاکستان کے شعراء کی فکری جہات کا احاطہ کرتے ہوئے بڑے اہم انکشافات کئے ہیں۔ ان کے ہاں قلم کی تقدیس کا احترام پایا جاتا ہے۔ اسلم عمادی نے کہا کہ محبوب خان اصغرنے اردو دنیا میں نہ صرف اپنی نثر بلکہ اپنی شاعری کے وسیلے سے بھی ادبی حلقوں میں اپنی معتبر پہچان بنائی ہے۔ ان کی تحریروں میں شعر وادب کی آگہی کی تیز لہروں میں ان کے وقیع تر مستقبل کی آہٹ سنی جاسکتی ہے۔ محسن جلگانوی نے محبوب خان اصغر کے ادبی سفر کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ماضی کے اوراق الٹے اور بتایا کہ اصغر کا قرطاس وقلم سے رشتہ ان کے عنفوان شباب ہی میں بندھ گیا تھانثر کے ساتھ نظم میں بھی ان کا قلم اپنی جولانیاں دکھانے لگا ہے ۔ معتمد انجمن ترقی اردو تلنگانہ جناب محمد عبدالرحیم خان نے کہا محبوب خان اصغر سب سے پہلے ایک مہذب خلیق اور مخلص شخصیت کا نام ہے۔ آج جس کتاب کی رسم اجراء انجام پائی ہے محبوب خان اصغر کی دوسری کاوش ہے ۔ مہمان خصوصی جناب ظہیر الدین علی خاں نے چند اہم انکشافات کرتے ہوئے حاضرین کو چونکا دیا انھوں نے کہا محبوب خان اصغر نے سیاست کے لئے بڑے وقیع تر مصاحبے کئے ہیں دوسری بات یہ کہ میں حیدرآباد کے ادبی حلقوں کے متنازعہ ماحول کے سبب کہیں کسی ادبی تقریب میں شرکت سے اعراض کرتا ہوں۔ وہ تو محبوب خاں اصغر سے تعلقات کے باعث میں انھیںمایوس نہ کرتے ہوئے اس محفل میں موجود ہوں۔ حیدرآباد کے ادبی حلقوں میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرائی کا ماحول اہل اردو کے لئے مایوس کن ہے۔ اجلاس کی کارروائی ڈاکٹر عطیہ مجیب عارفی نے چلائی۔ قبل ازیں محبوب اصغر نے خیر مقدمی تقریر کی ۔ صدر ادبی اجلاس پروفیسر قطب سرشار نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ جب کسی قوم پر اُفتاد آتی ہے وہ اپنے رب سے معاہدہ کرے کہ وہ اپنے ماضی کے گناہوں کا اعادہ نہیں کرے گا ان کی تلافی کرتے ہوئے سجدہ ریز ہو کر اللہ سے دعا کرے کہ جس طرح اس نے اہل مکہ کو ابرہہ اور اصحاب فیل سے نہ صرف بچالیا تھا بلکہ ابرہہ کو اس کی فوج کے ساتھ تہس نہس کردیا تھا یقیناآج کے حالات میں اللہ کی یہ سنت دہرائی جائے گی۔