ایک قد آور شخصیت جنھوں نے علمی گھرانے میں آنکھ کھولی، آپ کے والد بزرگوار حضرت علامہ حکیم محمدحسین صاحب شیخ الحدیث و امیر جامعہ نظامیہ رہ چکے اور اپنے دور کے معروف حکیم گذرے ہیں۔ پیرانی ماںرئیس المفسرین صدر الشیوخ حضرت مولانا سید شاہ طاہررضوی القادری علیہ الرحمہ کی اہلیہ تھیں۔ حضرت کی علمی خدمات سے کم و بیش نصف صدی فیضیاب ہوئی۔انتہا درجہ کی سادگی حضرت کا شیوہ،اعلی ترین علمی دانشمندی کے مالک،منکسرالمزاج آپ کی شخصیت رہی۔پیرانی ماں صاحبہ اکثر اس بات کا ذکر بڑی محبت اور فخر سے کرتی تھیں کہ ادیب علامہ حضرت سید شاہ ابراہیم رضوی القادری علیہ الرحمہ سے آپ کی تین نسبتیں وابستہ تھیں، ایک تو وہ آپ کے سسر،دوسرے استاد اور تیسرے شیخ طریقت رہے۔ پیرانی ماں صاحبہ کی شخصیت کو لفظوں میں بیان کرنا دشوار ہے۔ اس محبت اور شفقت کا اظہار کرتی کہ شاید ہی کوئی اپنا اس زمانے میں ایسا رویہ برقرار رکھ سکے۔وہ اس معاملے میں اپنی مثال آپ رہیں۔ آپ سے کیلئے کسی بھی وقت پہنچ جائیں تو ہمیں آپ کے چہرے پر بال برابر بھی شکن محسوس ہونے نہیں دیتیں۔ ہر مرتبہ ان دمکتی آنکھوں اور استقبالیہ مسکراہٹ کے ساتھ ہمارے آنے پر خوشی کا اظہار کرتیں کہ آج بھی وہ چہرہ ذہن نشین ہے اور ہماری نظروں میں گھوم جاتا ہے۔ پیرانی ماں صاحبہ کو مختلف ایام، مختلف مہینوں کی خاص تیاری کرتے دیکھا گیا۔آپ کے ہر عمل میں ہم نے استقامت دیکھا۔ چاہے محفل ذکر ہو یا محفل قصیدہ بردہ شریف یا پھر ہر ماہ کے پہلے جمعہ کومحفل برائے خواتین ہو یا پہلی دوسری رمضان میں سماعت قرآن کی تکمیل یا رمضان کی پہلی طاق رات، خصوصی اجتماع خواتین کیلئے آپ کو بڑے ہی اخلاص اور بنفس نفیس انتظامات کو خوش دلی کے ساتھ کرتے دیکھا گیا۔ اس کے علّوہ یہ بھی بات ملنے والوں کو نظر آتی کہ آپ مبارک ایام کی مناسبت سے دینی کتب کا مطالعہ ہمیشہ جاری و ساری رکھتیں، محسوس ہوا کہ آپ محدث دکن حضرت عبداللہ شاہ صاحب نقشبندی علیہ الرحمہ کے کتب کا مطالعہ بڑی عقیدت کے ساتھ کیا کرتی تھیں۔ آپ نہ صرف ان کاموں میں کوشاں رہتیں بلکہ کسی بھی عام خاتون کے مقابلے میں کثرت سے نوافل ، درود دلائل الخیرات، حزب البحر، اذکار، تلّوت قرآن پاک کو اپنی زندگی میں استقامت کے ساتھ ہمیشہ جاری رکھیں۔ آپ کی شخصیت کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اللہ پاک جب کسی کو اپنے کام کے لیے منتخب کر لیتا ہے تو گویا اس کے وقت میں برکت عطا فرماتا ہے۔ سبحان اللہ۔ آپ کی پر خلوص شخصیت ہونے کی وجہ سے آپ کے چاہنے والوں کا آپ سے ملّقات کرنے کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ یہ بھی آپ کا خاصہ ہے کہ آپ ہر درجہ مہمان نواز خاتون رہی۔ آپ کسی مہمان کو بغیر ضیافت کے رخصت ہونے نہ دیتیں،چاہے وہ بچہ ہو یا بوڑھا، جوان ہو یا بیمار،آپ اس مہمان کی حالت کا خیال کرتے ہوئے ان کی مہمان نوازی کرتیں۔یہ ہمیں موجودہ دور میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔وہ ایک ایسی گھریلو خاتون تھیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔اور کیوں نہ ہو؟ جس کے سسر ، پیر اور استاد برگزیدہ اور جس کے خاوند صدرالشیوخ ، بے شک میری پیرا نی ماں میں ان نسبتوں کے اثر کو ہم نے بنفس نفیس ملّحظہ کیا ہے۔ آپ سے ملاقات گویا کہ سنہرے انمول موتی اکھٹا کرنے کا موقع ہوتا۔ آپ کی بات جامع، پریکٹیکل اور مبالغہ سے بری ہوتی۔ آپ کی نصیحت تجربے کانچوڑ ہوتی ، جس میں آپ خود کوبالکل عام انسان کی طرح پیش کرتے ہوئے بتاتیں۔ کبھی اپنی تعریف کو قبول نہیں کیا ، ہر بڑائی ہر خوبی کو نسبت الٰہی اور قرب الٰہی یا عطائے الٰہی کہہ کر گزرتیں۔زندگی اور دین فطرت کو اس حسن اسلوبی کے ساتھ ہم تک پہنچایا کہ گویا عام گفتگو جاری ہے مگر اس میں کئی سنہری اصول اور موتی جڑیں کہ جو چاہے اس کو اپنے کشکول میںبھر لے۔ ہاں! آج ہم اس عظیم خاتون سے محروم ہیں۔وہ گھریلو خاتون جو اپنے گھر سے، اپنے ملنے اور جاننے والوں میں کس طرح دین کی محبت، اس کے احکام اورصبر و استقامت کا درس دے گئیں۔ اللہ پاک آپ بی بی کا فیض جاری و ساری رکھے، نسبتیں قائم رکھے۔ ہمیں آپ کے بتائے ہو ،انداز میں احکام شریعت کا پابند بنا۔ آپ کی محبت و شفقت کی یہ معتقدہ ہمیشہ مرہون منت رہے گی۔
معتقدہ
امتہ الرحمن