محمد اَشرف خاں سائبان سے حقیقی مکان تک

   

محترمہ انیس عائشہ
(صدر ایکسیس فاؤنڈیشن )
یہ کلی بھی اس گْلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یارب، اپنی خاکستر میں تھی!
کون یقین کرے گا کہ بھائی اشرف نہیں رہے، وہ تو ایسے انسان تھے جن کی زندگی کا اندازہ کیلنڈر سے نہیں لگایا جاسکتا ہے، ان کو ماہ وسال میں قید نہیں کیا جاسکتا ، ان کی عمر کا اندازہ تو ان کی آرزوؤں، کارناموں ، جدوجہد اور عزائم سے ہوتا ہے جو رہتی دنیا تک قائم ودائم رہتے ہیں۔ کسی نہ کسی شکل میں ، کسی نہ کسی ذریعہ سے اور اس کا اثر اس طرح ہوگا کہ آنے والی نسلیں اور بیدار ذہن اس کو دہراتے رہیں گے جو ثواب جاریہ کا باعث ہوگا۔
جوہر انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں
موت تجدیدِ مذاق زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
ایسے شخص کی عمر اس کے مقاصد جلیلہ سے ہمیشہ کم ہوتی ہے، اس کا عمل لازوال ہوتا ہے، طبعی دنیا میں بھی اور اخلاقی وروحانی دنیا میں بھی، وہ اپنے خیر میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
تو اسے پیمانہ امروز وفردا سے نہ ناپ
جاوداں ،ہردم جواں، پیہم رواں ہے زندگی
انہوں نے اپنے عمل اور سوچ سے یہ ثابت کردیا کہ
غم ہر حالت میں مہلک ہے
اپنا ہو یا اور کسی کا
کیوں نہ جہاں کا غم پالیں
بعد میں سب تدبیریں سوچیں
بعد میں سکھ کے سپنے دیکھیں
سپنوں کی تعبیریں سوچیں
اس وقت نظام تمدن کو ایک خاص نقشے کا انسان درکار ہے، جو اجتماعی نظام کے تابع ہو۔ یہ معاشرہ اصلا ح کی طرف مائل ہی نہیں ہے، ماحول کی طاقت آگے بڑھنے والوں کو کمر سے پکڑ پکڑ کے بار بار کھینچتی ہے، اصلاح کرنے والوں کو ازسر نو بگاڑدینا چاہتی ہے، ان کے دلوں میں رخنے تلاش کرتی ہے، اپنے جیسے عقیدے ، اپنی جیسی رسموں اور اپنی جیسی عادتوں کو کسی طرح سب کے اندر بسا دینا چاہتی ہے، ذہنی مصالحت کی کوئی راہ نکالنا چاہتی ہے، ایسے ناسازگار حالات میں جب کشمکش قوتوں کو مضمحل کردیتی ہے، ہمتوں کو جھکادیتی ہے تو بڑے بڑے مخلص لوگوں کے قدم پیچھے ہٹنے لگتے ہیں، ایسے وقت میں استقلال قائم رکھنا، بچوں کو اس آلودگی سے بچائے رکھنا، عیش وعشرت کی پرواہ کئے بغیرصبر وسکون سے آگے بڑھنا؛ کیونکہ باطل نظام تو اس بات کے لئے بھی تیار رہتا ہے کہ یہ اثر کم از کم اگلی نسل پر پڑجائے، ان سب سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے طریقے پر چلنا بھائی اشرف جیسے لوگوں کا ہی کام ہے، علامہ اقبالؔ نے ان ہی کیلئے کہا ہے:
تمنّا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں
تو کانٹوں میں اْلجھ کر زندگی کرنے کی خو کر لے
اگر منظور ہو تجھ کو خزاں ناآشنا رہنا
جہانِ رنگ و بو سے، پہلے قطعِ آرزو کر لے
(موصوف کو اچھے اشعار سننا اور پڑھنا بہت پسند تھاکیوں نہ ہوجبکہ وہ ایک صاحب علم وفہم تھے، اعلیٰ معیاری ذوق کے مالک تھے اور انہیں اُردو ادب سے خاص لگاؤ تھا، ہمیشہ اچھی چیز پسند کرتے تھے۔ اسی وجہ سے بہت سے اشعار شامل کئے گئے ہیں)
وہ زندگی کے سفر میں ایک فرمانبردار فرزند، شریک زندگی کیلئے ایک مضبوط محافظ اور مخلص ساتھی، بچوں کے شفیق باپ، رشتہ داروں کے خبر گیر، دوست احباب کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے، ان کے یہاں ایک صاحب دل کا جوش، ولولہ، مسلسل کاوش، زندگی کا گہرا مطالعہ اور مشاہدہ، وسیع بینائی اور حق شناسی ملتی ہے، گرچیکہ اپنی ذات کو باقی دنیا سے الگ سوچنا بہت مشکل اور ناممکن سا کام ہے کیونکہ گردوپیش کے تجربات بہرحال شامل حال رہتے ہیں۔ انہوں نے یہ عزم کرلیا تھا کہ پسماندہ نوجوان نسل کو علمی وعملی طور پر اس قابل بنادیں کہ وہ اپنے سے بہتر لوگوں کے مقابل آجائیں، انہوں نے خضر علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوئے کوشش کی کہ وہ اس گرتی دیوار کو سنبھال دیں جس کے نیچے ان بچوں کے لئے خزانہ مدفون ہے، ایسے بچوں کی گنتی ہی نہیں کی جاسکتی جن کو دامے درمے سخنے پیروں پر کھڑا ہونے اور ماحول سے آنکھ ملانے کے قابل بنایا، گاؤں کے گاؤں ایسے ہنر مند بچوں سے بھرے پڑے ہیں جس کا ان غریبوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا، عام طور سے پسماندہ ذہن اپنے حال میں مطمئن رہتا ہے اور اپنی قسمت سمجھ کر زندگی گزارتا ہے، ان کو جھنجھوڑکر جگانا ہوتا ہے، ان کی صلاحیتوں کا یقین دلانا ہوتا ہے ، ان میں خود اعتمادی پیداکرنی ہوتی ہے، جس کیلئے ایک دو نہیں بیسیوں سال لگ جاتے ہیں، یہ سب انہوں نے کیا، آج وہاں جاکر ان کا حال پوچھئے وہ سب کہہ اْٹھیں گے، کیونکہ ان کیلئے ایک نئی دنیا بنادی۔
آسماں سے گرا تھا جو کل ٹوٹ کر
وہ ستارہ بدوشِ قمر آگیا
لے کے پیمانۂ دردِ دل ہاتھ میں
کل کے چہرے پہ خونِ جگر آگیا
بزمِ سیارگاں میں فلک سیر میں
اک ہنرمند سیارہ گر آگیا
دراصل…
چمن میں پھول کا کھلنا تو کوئی بات نہیں
مگر وہ پھول جو گلشن بنائے صحرا کو
آپ کی شریک حیات میری پیاری بہن اور دوست جس کے پاس بے شمار یادیں، ان گنت ساتھ گزارے ہوئے لمحات ان کو صبر کی تلقین کرنے پر کہتی ہیں۔
سبب ہر ایک مجھ سے پوچھتا ہے میرے رونے کا
الٰہی ساری دنیا کو میں کیسے رازداں کرلوں
وہ تمام دوردرازکے رشتہ دار(جن کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر قریب کیااورپھر مستقل آج تک مدد کی جو قریب قریب بھلائے جاچکے تھے اور مفلوک الحال زندگی گزار رہے تھے) اور وہ تمام گاؤں کے بچے…
جو ابھی اُبھرے ہیں ظلمت خانہ ایّام سے
جن کی ضوناآشنا ہے قید صبح و شام سے
ہے کوئی ہنگامہ تیری تْربتِ خاموش میں
پل رہی ہے ایک قومِ تازہ اس آغوش میں
اخیر میں دُعا ہے:
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نَورْستہ اس گھر کی نگہبانی کرے