محمد بن سلمان نے امیر قطر کا سعودی عرب میں شاندار خیرمقدم کیا

,

   

قطر کیلئے سعودی عرب کے بری ، بحری اور فضائی سرحدیں کھل گئیں۔ اختلافات ختم ۔ سکیوریٹی استحکام اور خوشحالی ہماری اوّلین ترجیح،العلا اعلامیہ پر دستخط

ریاض : سعودی عرب کے ولیعہد شہزادہ محماد بن سلمان نے تاریخی شہر العلا میں خلیج تعاون کونسل کے 41 ویں چوٹی کانفرنس میں شرکت کے لئے پہونچے امیر قطر تمیم بن حماد کا پرتپاک استقبال کیا۔ محمد بن سلمان کے اِس والہانہ خیرمقدم پر امیر قطر بیحد متاثر اور مسرور ہوئے۔ العلا ایرپورٹ پر دونوں عرب قائدین ایک دوسرے کو عرب روایات کے مطابق بغلگیر ہوکر خوشی کا اظہار کیا۔ جی سی سی چوٹی کانفرنس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے محمد بن سلمان نے کہاکہ خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم اِس خطہ کو آگے لیجائیں گے اور ایران سے درپیش خطرات سے نمٹنے کے لئے متحدہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ایرانی نظام سے درپیش خطرات میں جوہری پروگرام ، اس کا بیلسٹک میزائل پروگرام اور اس کی اپنی اور گماشتہ تنظیموں کی دہشت گردی اور فرقہ وار سرگرمیاں شامل ہیں جن کا مقصد خطے کوعدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔یہ خطہ کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ہے۔‘‘انھوں نے کہا:’’جی سی سی کے لیڈروں کو عالمی برادری سے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ خطے کی سلامتی کے لیے خطرے کا موجب ان پروگراموں کو روکنے کے لیے مل جل کرکام کریں۔‘‘شہزادہ محمد بن سلمان نے بتایا کہ کونسل کے رکن ممالک نے العْلا اعلامیے پر دستخط کردیے ہیں۔جی سی سی کے سربراہ اجلاس کے میزبان شہر کے نام پر وضع کردہ اس اعلامیے میں خلیج ، عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان یکجہتی اور استحکام کی ضرورت پر زوردیا گیا ہے۔ان ممالک اور ان کے عوام کے درمیان دوستی اور بھائی چارہ کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی امیدوں اور اُمنگوں کو پورا کیا جاسکے۔سعودی ولیعہد نے کہا کہ’’کونسل کا قیام ہمارے ممالک کے درمیان خصوصی تعلق داری کی بنیادپرعمل میں آیا تھا۔یہ ہمارے مشترکہ عقیدے ، بھائی چارے اور مشترکہ منزل کی عکاس ہے۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ ’’اس چوٹی کانفرنسمیں دو عظیم لیڈروں کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ انھوں نے رکن ممالک کے درمیان مصالحانہ بات چیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ کویت کے مرحوم امیر شیخ صباح الاحماد الصباح اور عْمان کے مرحوم سلطان قابوس بن سعید ہیں۔‘‘ شہزادہ محمد نے اپنی تقریر میں سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، مصر اور قطر کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے لئے مصالحتی کوششوں پر کویت کے موجودہ امیر شیخ نواف الاحمد الصباح اور امریکہ کا شکریہ ادا کیا ہے۔واضح رہے کہ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ،بحرین اور مصر نے 2017ء میں قطر کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرلئے تھے اور اس پرالاخوان المسلمون کی پشت پناہی اور دوسرے انتہا پسند گروپوں سے تعلقات استوارکرنے اور ان چاروں ملکوں کے داخلی امور میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ ڈاکٹر انور گرگش نے کہاکہ العلا کی یہ چوٹی کانفرنس تاریخ رقم کرے گی۔ خلیج میں سکیوریٹی استحکام اور خوشحالی کے لئے ہمارے ممالک اور عوام کو مل کر اوّلین ترجیح دینی ہوگی۔ ہمیں درست سمت میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بحرین کے ولیعہد شہزادہ اور وزیراعظم سلمان بن حماد وہ پہلے علاقائی لیڈر ہیں جو اِس چوٹی کانفرنس میں شرکت کررہے ہیں۔ اِن کے ہمراہ عمانی وفد بھی شامل ہے جن میں نائب وزیراعظم فہد بن محمود، سلطان حاتم کی جانب سے شرکت کررہے ہیں۔ شیخ محماد بن راشد نائب صدر متحدہ عرب امارات اور دبئی کے حکمراں بھی اپنے وفد کے ساتھ پہونچے۔ اس کانفرنس میں کویت، عمان، بحرین اورا ماراتی وفود حصہ لے رہے ہیں۔ پہلے سیشن کے اختتام سے قبل خلیجی ممالک کے سربراہان نے العلا اعلامیہ پر دستخط کئے ہیں۔ ترکی نے قطر اور سعودی عرب کے مابین سرحدیں کھولنے کے فیصلہ کا خیرمقدم کیا ہے۔ مصر نے بھی کہا ہے کہ وہ سعودی عرب کے بعد قطر کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کیلئے تیار ہے ۔

سعودی عرب کے شہر العلا کی تاریخی حیثیت اور خوبصورتی
سعودی عرب کی تاریخ کے قدیم دارالحکومت العلا میں 41 ویں خلیجی تعاون کونسل کی چوٹی کانفرنس جاری ہے۔ وادی العلا کے المرایا کنسرٹ ہال میں منعقد ہونے والی اِس چوٹی کانفرنس میں خلیجی ممالک کے قائدین شرکت کررہے ہیں۔ کنسرٹ ہال 9,500 مربع میٹر رقبہ پر مشتمل اور آئینے سے ڈھکا ہوا ہے۔ اِسی لئے اِس کا نام المرایا ہے۔ عمارت کے اطراف گھرے یہ آئینے حیرت انگیز مناظر کا عکس دکھائی دیتے ہیں۔ العلا کو ہزاروں برس کے دوران یکے بعد دیگرآنے والی تہذیبوں نے تعمیر کیا تھا اور اسے تین براعظموں کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے مشرق اور مغرب کے درمیان ثقافتی تبادلہ کا مقام سمجھا جاتا ہے۔ العلا کا پرانا قصبہ سعودی عرب کے شمال میں مداین صالح نامی تاریخی جگہ سے تقریباً 20 کیلو میٹر دور واقع ہے۔ 7 صدی قدیم یہ مقام مساجد اور بازاروں سے بھرا ہوا ہے جو اِس کی تاریخی حیثیت اور خوبصورتی کو اُجاگر کرتا ہے۔ یہاں قدیم تہذیب اور ثقافت کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ ریاض، جدہ اور دمام سے العلا کے لئے پروازیں دستیاب ہیں۔ یہ شہر ریاض سے 10 گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔