محمد جہاں ، کالے انگریزوں کیخلاف جدوجہد آزادی کا ننھا شہید

,

   

شاہین باغ میں شدید سردی کے باعث فوت شیرخوار کی ماں احتجاج میں پھر شامل

نئی دہلی ۔ 6 ۔ فروری (سیاست نیوز) شاہین باغ میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کر رہی خواتین اور لڑکیوں کی نظریں اپنی ماں کی گود میں کھیل رہے4 ماہ کے محمد جہاں پر مرکوز تھیں، ہر کوئی اس کے قریب جاتے اس کے ماتھے کو چومتے اور حیرت کا اظہار کرتے کہ سی اے اے این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاج میں 4 ماہ کا شیر خوار بھی شامل ہے ۔ شاہین باغ میں جب 6 تا 10 سال کی لڑکیاں آزادی کے نعرے لگاتی ہیں جمہوریت و سیکولر کے دشمنوں پر طنز و طعنے کستے ہوئے ان کے خیموں میں ہیبت طاری کرتیں تو محمد جہاں کے چہرہ پر جو بصورت مسکراہٹ پھیل جاتی وہ ایسے مسکراتا جیسے وہ نریندر مودی اور امیت شاہ کی حکومت کے خلاف نعروں میں خود شامل ہے ۔ محمد جہاں نے شائد جدوجہد آزادی کی جدید تاریخ میں اپنا نام سنہری الفاظ میں درج کروالیا ۔نعروں کے جواب میں محمد جہاں کی ماں نازیہ جو نعرے لگاتی تو محمد جہاں کا چہرہ کھل اٹھتا۔ قارئین محمد جہاں کو شائد ماں کی لوریوں سے زیادہ فرقہ پرست حکمرانوں سے آزادی ، بھوک پیاس سے آزادی ، بیروزگاری سے آزادی ، توہم پرستی سے آزادی اور بیماریوں سے آزادی کے نعرے پسند آنے لگے تھے ۔ ان نعروں کے درمیان شدید سردی کے باو جود وہ خود کو گرما گرم ماحول میں محسوس کرتا ویسے بھی ماں کا گود اس کیلئے کافی محفوظ تھا ۔ شائد وہ یہ سوچتا کہ پولیس کا ظلم و جبر ان کی درندگی اس کی ماں نازیہ کے گود تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ بہرحال محمد عارف و نازیہ کا وہ چار ماہ کا شیرخوار اب اس دنیا میں نہیں رہا ۔ اس طرح اسے گورے انگریزوں و کالے انگریزوں کے خلاف آزادی کی لڑائی لڑتے شہید ہونے والے سب سے کم عمر مجاہد آزادی کا اعزاز حاصل ہوگیا ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ اپنی ماں کی گود میں بیٹھ کر بھی محمد جہاں فرقہ پرست غداروں پر ہیبت طاری کردیا کرتا تھا ۔ محمد جہاں کوئی متمول خاندان سے تعلق نہیں رکھتا تھا بلکہ اس کے والد محمد عارف ایمبرائیڈری کا کام کرتے ہیں اور رکشہ بھی چلاتے ہیں۔ نازیہ اپنے شوہر کے کام میں ہاتھ بٹاتی ہے ۔ بٹلہ ہاؤس علاقہ کے ساکن اس جوڑے کے مزید دو بچے ہیں، ایک 5 سالہ بیٹی اور ایک سالہ بیٹا۔ نازیہ ہر روز شاہین باغ پہنچ جاتی اور رات دیر گئے گھر واپس ہوتی ۔ ہمیشہ کی طرح اس کے گود میں محمد جہاں آرام کرتا ۔ نازیہ شدید سردی کے باو جود اپنے شیرخوار بیٹے کے ہمراہ مسلسل شاہین باغ آتی رہی اور 30 جنوری کو بھی وہ محمد جہاں کو گود میں لئے شاہین باغ پہنچی ۔ لوگوں نے وہاں اس معصوم کو بہت چوما ، بہت پیار کیا ، ایسا لگ رہا تھا کہ اب دوبارہ وہ سی اے اے کے خلاف احتجاج میں حصہ نہیں لے گا ۔ ا یسا ہی ہوا ۔ رات ایک بجے نازیہ اور محمد عارف اپنے بچے کے ہمراہ گھر واپس ہوئے ، صبح ہوئی تو نازیہ نے دیکھا کہ محمد جہاں میں کوئی حرکت نہیں ، فوری اسے اسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اسے مر دہ قرار دیا ہے۔ ا پنے معصوم بچے کی موت کو نا زیہ نے ایک شہید کی موت قرار دیا ۔ اب اس غمزدہ ماں کا یہی کہنا ہے کہ وہ اب بھی اسی طرح شاہین باغ جائے گی جس طرح اپنے نور نظر کے ہمراہ آیا کرتی تھی ۔ حالات نے اس کے عزائم کو کمزور نہیں کیا بلکہ اس میں اپنے ملک ، قوم اور اپنے بچوں کے مستقبل کو بچانے کیلئے ایک نیا جوش و ولولہ پیدا ہوا ۔ بہرحال شاہین باغ کی غمزدہ ماں نازیہ اور ان کا شہید بیٹا محمد جہاں ان تمام کیلئے ایک مثال ہے جو تعصب جانبداری ناانصافی ظلم و جبر درندگی اور فر قہ پرستی کی حیوانیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ محمد جہاں نے اپنی شہادت کے ذریعہ فرقہ پرستوں کو یہ بتادیا ہیکہ ہم مر سکتے ہیں لیکن تمہارے سامنے سر نہیں جھکا سکتے۔