نئی دہلی، 31 اکتوبر(یو این آئی) اگر کسی کو نثر سیکھنی ہے تو اسے دربارِ اکبری اور آبِ حیات پڑھنا چاہیے ۔ محمد حسین آزاد کہانی کو شعر اور شعر کو کہانی کے پیکر میں ڈھال دینے والے نابغہ تھے ۔ ان خیالات کا اظہار شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیرِ اہتمام دوسرے مقبول نکہت مہدی یادگاری خطبے کے خطیب معروف محقق اور نقاد پروفیسر خالد علوی نے کیا۔انہوں نے کہا کہ ان کا کمال یہ تھا کہ دقیق فلسفیانہ مسائل کو بھی پانی کر دیتے تھے ۔ انھوں نے محمد حسین آزاد کی علمی بصیرتوں اور نثری بوالعجبیوں پر مفصل بحث کرتے ہوئے کہا کہ محمد حسین آزاد کی زندگی پر 1857ء کی پرآشوب صورت حال کے نہایت گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔ پروفیسر خالد علوی نے بتایا کہ محمد حسین آزاد کی کتاب دربارِ اکبری اردو نثر کی شاہکار ہے ۔ وہ ایک ایسے عجوبۂ روزگار تھے جنھوں نے ذہنی خلل کے زمانے میں 89کتابیں لکھیں۔ ان کا ذہن واقعات کا ایک انسائیکلوپیڈیا تھا۔