مبصر محمد ریاض احمد
قدرت نے اس دنیا کو سر سبز و شادابی کے ذریعہ جو حسن عطا کیا ہے، اس حسن کو دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں اور ان کی زبانوں سے اللہ عز و جل کی حمد و ثناء جاری ہوجاتی ہے۔آپ ذرا سوچھئے کہ ایک بیچ جب بویا جاتا ہے یا تخم ریزی کی جاتی ہے تو وہ بیج جلد ہی پودے کی شکل اپنا لیتا ہے اور پھر ننھا سا پودا ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور انسانوں کو اپنے پھلوں، پھولوں اور چھاؤں کے ساتھ ساتھ طبی لحاظ سے کافی فوائد پہنچاتا ہے۔ ایسے ہی آج ہم دنیا کی جو بڑی بڑی یونیورسٹیز اور ان کے تحقیقی کارناموں کو دیکھ رہے ہیں، وہ بھی کبھی چھوٹے سے اسکول ہوا کرتے تھے جن میں طلباء کی تعداد صرف 4 ہوتی تو کسی میں صرف اور صرف 10 طلباء حصول علم میں منہمک رہتے ۔ دنیا کی ایسی باوقار یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں میں سرسید احمد خاں کی قائم کردہ ’’علیگڑھ مسلم یونیورسٹی‘‘ بھی شامل ہے جسے انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو عصری علوم سے ہم آہنگ کرنے کیلئے قائم کی تھی۔ آج بھی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی بڑی آن و شان کے ساتھ علم کے پیاسوں کی پیاس بجھا رہی ہے، ان کے وجود کو علم کی روشنی سے منور کررہی ہے۔ ویسے بھی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بارے میں اُردو اور انگریزی میں کچھ کتابیں منظر عام پر آئی ہیں، لیکن حال ہی میں ہمیں محمد وجیہہ الدین کی انگریزی کتاب ’’علیگڑھ مسلم یونیورسٹی‘‘ کے مطالعہ کا موقع ملا۔ 217 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں مصنف جنہوں نے کچھ برس علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل کیا۔ اکثر کتابوں کا انتساب بہت طویل ہوا کرتا ہے، لیکن محمد وجیہہ الدین نے دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مانند صرف ایک سطر میں کتاب کو اپنی امی ابا کے نام معنون کیا جو اس طرح ہے:
To Abba and Ammi who would have felt proud today.
محمد وجیہہ الدین نے اس زیرتبصرہ کتاب میں کئی ایسی باتیں لکھی ہیں، جس کے بارے میں شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ڈسمبر 2020ء میں اپنے قیام کے 100 سال مکمل کرنے والی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام دراصل ڈسمبر 1920ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی حیثیت سے عمل میں آیا اور پھر 1877ء میں اس نے باوقار علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل اختیار کرلی چونکہ 1857ء غدر کے بعد مسلمانان ہند کے حالات دگرگوں ہوگئے تھے اور انگریز مسلمانوں کو ہی اس کا ذمہ دار سمجھتے تھے، ایسے میں سرسید نے یہ تہیہ کرلیا کہ وہ مسلمانوں کی توجہ عصری علوم کی جانب مبذول کروائیں گے تاکہ وہ مستقبل میں اپنے دیگر آبنائے وطن سے پیچھے نہ رہیں چنانچہ انہوں نے آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی جس کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو عصری علوم اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ بہرحال دنیا نے دیکھا کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی نے آزادی سے قبل اور پھر مابعد آزادی کس طرح مسلمانان ہند کو عصری علوم کی جانب راغب کیا۔ واضح رہے کہ محمد وجیہہ الدین کی اس کتاب کا سرورق دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جس پر اے ایم یو کی خوبصورت عمارات کی تصاویر دیکھنے والوں کو اپنی طرف کھینچنے لگتی ہیں۔ ہارپر کولنس پبلیشر نے اسے شائع کیا۔ سورو واس نے اس سرورق کو ڈیزائن کیا ہے۔ محمد وجیہہ الدین نے اپنی کتاب میں ویسے تو کئی انکشافات کئے، لیکن انہوں نے اس کرہ ارض کی پہلی اُردو یونیورسٹی ، عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد کا قیام کیسے عمل میں آیا۔ اس میں بابائے اُردو مولوی عبدالحق، سرسید احمد خاں کے پوتے سرراسِ مسعود اور اس وقت سلطان بازار میں واقع خوبصورت محل (موجودہ ویمنس کالج کوٹھی) میں مقیم انگریز ریسیڈنٹ جیمس کرک پیاٹرک کا کیا رول رہا اور سر راس مسعود نے پیاٹرک کو مادری زبان کی اہمیت کے بارے میں کیسے قائل کروایا۔ اس پر بہتر انداز میں روشنی ڈالی۔ محمد وجیہ الدین نے اپنی زیرتبصرہ کتاب میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اعلیٰ معیارِ تعلیم، وہاں کے ڈریس کوڈ (شیروانی، چوڑی دار پاجامہ اور ترکش ٹوپی (لڑکوں کیلئے) اور نقاب حجاب (طالبات کیلئے) پر بھی روشنی ڈالی۔ ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ 1950ء سے ڈریس کوڈ کی اہمیت ختم کرنے کی کوشش کا آغاز ہوا۔ مصنف نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کی آمد ان کے خلاف ہوننگ محمد علی جناح کی آمد کے ساتھ ساتھ اس باوقار یونیورسٹی کے باوقار وباء احترام طلباء محمد حبیب، حمزہ علوی، رشید احمد صدیقی، ڈاکٹر ذاکر حسین، صاحبزادہ لیاقت علی خاں، سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خاں، مولانا محمد علی جوہر، شوکت علی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، اے ایم خواجہ، ڈاکٹر سید محمود، رفیع احمد قدوائی، مولانا حسرت موہانی، ٹی اے کے شیروانی، ظفر علی خاں، راجہ مہندر پرتاپ سنگھ، ڈاکٹر سید حسین، چودھری خلیق الزماں، یٰسین نوری اور حافظ محمد ابراہیم کا بطور خاص ذکر کیا۔محمد وجیہ الدین کی اس قلمی کاوش میں ان کی بیٹیوں، نایا ب ، سارہ اور زرّین کا اہم حصہ رہا جنہوں نے ایک دن اُن سے دریافت کیا کہ ڈیڈی! آپ کب ایک مصنف بنیں گے؟‘‘ ۔ بیٹیوں کے وہ سوال اس خوبصورت معلوماتی کتاب کی تخلیق کا باعث بنی جبکہ ان بیٹیوں کی ماں یعنی محمد وجیہ الدین کی اہلیہ حنا نے اپنی بیٹیوں کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں اسے شوہر کو ترغیب دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔اس طرح ایک معلوماتی پرکشش انگریزی کتاب قارئین کے ہاتھوں تک پہنچ پائی جس کے ذریعہ انگریزی دان نئی نسل کو بھی اپنے اسلاف کے تعلیمی کارناموں بالخصوص علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ کے بارے میں جاننے کا موقع ملے گا اور وہ جان پائیں گے کہ مدرسۃ العلوم مسلمانان ہند سے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا طویل سفر کیسے طئے ہوا۔ بہرحال اس کتاب کیلئے منصف محمد وجیہہ الدین قابل مبارکباد ہیں۔