8 برسوں میں مسلمانوں سے وعدے فراموش، دعوت افطار کے بائیکاٹ کی اپیل پر قائم ہوں: محمد علی شبیر
حیدرآباد۔14 ۔ اپریل (سیاست نیوز) سابق اپوزیشن لیڈر محمد علی شبیر نے وزیر داخلہ محمد محمود علی کو مشورہ دیا کہ وہ مسلم تحفظات کی تاریخ سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد اظہار خیال کریں۔ میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے محمد علی شبیر نے کہا کہ گزشتہ 8 برسوں میں ٹی آر ایس کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی عدم تکمیل پر بطور احتجاج چیف منسٹر کی دعوت افطار کے بائیکاٹ کی اپیل پر وہ قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے خود وزیر داخلہ اور ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین کو دعوت افطار کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا چاہئے۔ اقلیتی بہبود سے متعلق محمود علی کے بیان کو معلومات کی کمی کا نتیجہ اور چیف منسٹر کی چاپلوسی قرار دیتے ہوئے محمد علی شبیر نے کہا کہ جس وقت مسلم تحفظات کی مساعی کا آغاز ہوا ، اس وقت محمود علی پرانے شہر میں دودھ فروخت کر رہے تھے۔ انہیں سیاست اور مسلم تحفظات سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا۔ محمد علی شبیر نے بتایا کہ 1994 ء میں وجئے بھاسکر ریڈی دور حکومت میں 25 اگست کو جی او نمبر 30 جاری کرتے ہوئے مسلمان اور دیگر 13 طبقات کو تحفظات فراہم کئے گئے ۔ تحفظات کیلئے پٹو سوامی کمیشن قائم کیا گیا جس نے 9 برسوں تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کی۔ 1994 ء میں جس وقت میں وزیر اوقاف تھا، اسی وقت مسلم تحفظات کیلئے مساعی شروع کی گئی ۔ 2004 ء میں وائی ایس راج شیکھرریڈی حکومت میں 5 فیصد مسلم تحفظات کا اعلان کیا اور قانونی رکاوٹ کے بعد 56 دنوں میں چار فیصد تحفظات فراہم کئے گئے ۔ 2004 ء میں محمود علی سیاست میں داخل نہیں ہوئے تھے اور انہیں اظہار خیال سے قبل تحفظات کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسلم تحفظات کیلئے چیف منسٹر کے سی آر ذمہ دار ہیں تو پھر چیف منسٹر کی حیثیت سے 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے میں کیا رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس نے پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ہی تحفظات پر عمل کیا ۔ اسی طرح کے سی آر بھی عمل کرسکتے ہیں لیکن انہیں مسلم تحفظات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ کانگریس کے 4 فیصد تحفظات سے جاریہ سال تلگو ریاستوں میں 1073 مسلم طلبہ کو ایم بی بی ایس میں داخلہ حاصل ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ جس وقت کانگریس نے تحفظات کی مہم شروع کی اس وقت کے سی آر تلگو دیشم میں تھے جبکہ محمود علی دودھ فروخت کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ چیف منسٹر کی برہمی کے بعد محمود علی نے بیان جاری کیا۔ انہوں نے کہا کہ محمود علی کا کام چیف منسٹر کو امام ضامن باندھنا اور خوش آمد کرنا ہے تاکہ اپنی کرسی محفوظ رہے۔ انہوں نے محمود علی کو مشورہ دیا کہ اگر وہ حقیقی معنوں میں مسلمانوں کے ہمدرد ہیں تو دعوت افطار کا بائیکاٹ کریں۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ تلنگانہ میں اردو کی بحیثیت دوسری سرکاری زبان عمل آوری صفر ہے اسی لئے کلکٹریٹ میں اردو کا استعمال نہیں ہے۔ حتیٰ کہ حیدرآباد میں سرکاری دفاتر کے سائن بورڈس سے اردو غائب ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکریٹریٹ کی دونوں آباد مساجد کو شہید کردیا گیا لیکن محمود علی مسلمانوں کو گمراہ کرنے کیلئے بیان دیا تھا کہ ملبہ گرنے سے معمولی نقصان ہوا ہے ۔ مساجد کے معاملہ میں غلط بیانی اور جھوٹ سے کام لینے والے شخص سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مساجد کی دوبارہ تعمیر میں سنجیدہ ہے۔ محمود علی کو مسلمانوں سے معذرت خواہی کرنی چاہئے اور اس بات کی وضاحت کریں کہ مساجد میں موجود قرآن مجید اور جائے نماز کہاں ہے۔ ٹی آر ایس دور حکومت میں 6 مساجد کو شہید کیا گیا ۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ وہ مسلمانوں سے چیف منسٹرکی دعوت افطار کی اپیل پر قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اقلیتی بہبود اور تحفظات کے مسئلہ پر مباحث کرنا ہو تو وہ چیف منسٹر کے سی آر سے کریں گے۔ ر