محمد مصطفی علی سروری
محمدی بیگم شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی وہ لڑکی ہے جس نے جہد مسلسل سے یہ بات ثابت کیا کہ غریب ہونا عیب نہیں اور غریب ہونے کے باوجود بھی اچھا تعلیمی مظاہرہ پیش کیا جاسکتا ہے۔ جی ہاں قارئین کرام محمدی بیگم شہر حیدرآباد کی وہ لڑکی ہے جس نے اپنے گھریلو حالات کو اپنے تعلیمی سفر میں رکاوٹ بننے نہیں دیا اور آل انڈیا میڈیکل انٹرنس امتحان میں کامیابی حاصل کر کے سرکاری کوٹے کے تحت ایک میڈیکل کالج میں داخلہ حاصل کرلیا۔ یوں تو ہر سال ہزاروں لڑکے لڑکیاں میڈیکل انٹرنس امتحان لکھتی ہیں اور سینکڑوں ان میں کامیابی بھی حاصل کرتی ہیں لیکن محمدی بیگم کو جو چیز دوسروں سے الگ بناتی ہے وہ محمدی بیگم کا خاندانی پس منظر ہے۔ محمدی بیگم کے خاندان میں سب سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اس کی ماں ہے انیس فاطمہ جو محمدی بیگم کی والدہ ہیں۔ اُنہوں نے دسویں تک تعلیم حاصل کی ہے اور یہی اس خاندان کی اعلیٰ ترین تعلیمی قابلیت ہے۔ جب کہ محمدی بیگم کے والد شیخ مقبول نے کبھی اسکول کا منہ ہی نہیں دیکھا۔ قارئین ایسی بھی سینکڑوں مثالیں ہیں جہاں پر ماں باپ تعلیم سے بے بہرہ یا کم تعلیم یافتہ ہیں اور بچوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی لیکن محمدی بیگم کا تعارف بتلانے کے لیے میں وہ پس منظر بھی بتلانا ضروری سمجھتا ہوں۔
تفصیلات کے مطابق اخبار میں میرے مضامین پڑھنے والے قاری نے شکایت بھرے لہجے میں فون کیا کہ ارے جناب آپ تو چن چن کر غیر مسلم نوجوانوں کی محنت پر قلم اٹھاتے ہیں۔ غیر مسلموں کی کامیابی کے سفر کو بیان کرتے ہیں تو آپ کو شہر حیدرآبادی کی محمدی بیگم کی کامیابی پر بھی قلم اٹھانا چاہیے۔ خیر سے اس قاری نے توجہ دلائی تو ہم نے بھی فوری طور پر محمد بیگم سے ملاقات کا راستہ ڈھونڈ نکالا اور اپنے ایک صحافی دوست کے ہمراہ اس کے گھر پر پہنچ گئے۔
قارئین محمد بیگم کے گھر کا وہ منظر یہاں واضح کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے تاکہ اس لڑکی کے حالات زندگی کا احساس ہوسکے۔ اس لڑکی کے گھر کا پتہ بڑاآسان تھا وہ اس لیے چادر گھاٹ پل کے پاس جو ہائی ٹنشن الکٹریسٹی کا کھمبا تھا بس وہی Land Mark اور نمایاں نشانی تھی۔ کیونکہ محمدی بیگم کے گھر میں ملاقات کے لیے جس کسی کو بھی داخل ہونا پڑتا تھا انہیں اسی الیکٹریسٹی پول کے ان لوہے کی راڈوں سے جھک کر اندر داخل ہونا تھا اور تھوڑی دور سے جو ہائی ٹنشن الیکٹریسٹی وائر کا بڑا سا کھمبا نظر آرہا ہے بالکل اسی کھمبے کے چار ستونوں کے درمیان ہی وہ سائبان تھا جو محمدی بیگم کا گھرکہلاتا تھا۔ گھر کے دروازے پر کپڑا کا پردہ تھا بلکہ یہی پردہ دروازے کا بھی کام کر رہا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی موری سے بچ کر قدم بڑھائیں تو دو ایک کرسیاں ہماری منتظر تھیں جس پر بیٹھ کر احساس ہوا کہ ہم اس گھر کے دیوان خانے میں بلکہ چولہے میں بیٹھے ہیں۔ گھر کی دیواروں پر لگے چار فیٹ کی بلندی پر نشان گواہی دے رہے تھے کہ جب شہر حیدرآباد میں زبردست بارش ہوئی اور موسیٰ ندی کے پانی میں بہائو آیا تھا تو اکتوبر 2020کے دوران اس لڑکی کا گھر بھی زیر آب آگیا تھا۔
گورنمنٹ سٹی ماڈل اسکول چادر گھاٹ سے دسویں کا امتحان 9.5 گریڈ سے پاس کرنے والی محمد بیگم آٹو ڈرائیور شیخ مقبول کی بڑی لڑکی ہے۔ اللہ نے اس آٹو ڈرائیور کو اولاد کی شکل میں چار کی چار لڑکیوں سے نوازا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ غریب باپ تو اپنی لڑکی کو آنے والے پہلے رشتے کو ہی سب سے بڑی نعمت سمجھتا ہے لیکن دسویں کلاس میں محمدی بیگم کو رشتہ آیا تو ماں باپ نے منع کردیا کیوں کہ محمدی بیگم اپنی آگے کی تعلیم کے حوالے سے بالکل واضح تھی اور بچی کے اس ارادے پر اس کے ماں باپ نے بھی اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔ محمدی بیگم نے خاص کر اپنے اسکول کے پرنسپل عبدالشکور صاحب کو یاد کیا جنہوں نے اس کی زمانہ طالب علمی کے دوران ہمت بندھائی اور مسلسل آگے بڑھنے کی ترغیب دلائی۔ محمدی بیگم کے مطابق شکور صاحب آج بقید حیات ہوتے تو بڑے خوش ہوتے کہ ان کی ہمت افزائی رائیگاں نہیں گئی۔ محمدی بیگم نے ایم بی بی ایس کی سیٹ ملنے کے بعد اپنے اسکول ہیڈ ماسٹر کے گھر کو گئی اور وہاں اپنے ہیڈ ماسٹر کی بیوہ سے مل کر شکریہ ادا کیا۔
اب ذرا یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ محمدی بیگم کی اس تعلیمی کامیابی کے پیچھے اس کی والدہ انیس بیگم اور والد محمد مقبول کا کیا رول رہا۔ انیس بیگم بتلاتی ہیں کہ میری بچی جب ایس ایس سی کا امتحان لکھ رہی تھی تو میں اس کے ساتھ امتحان سنٹر کو جاتی تھی۔ بچی اندر امتحان ہال میں ہوتی اور وہ باہر اس کا انتظار کرتی تھی۔ 10؍ دسمبر کو کونسلنگ کے پہلے مرحلے میں جب محمدی بیگم کو میڈیکل ایڈمیشن کے لیے 95 ہزار روپئے جمع کروانے تھے تو 9؍ تاریخ کو ایک خیراتی ادارے نے 60ہزار روپئے کا چیک دے دیا لیکن باقی کے پیسے جمع کرنے کے لیے انیس فاطمہ نے اپنا سونا بیچ کر 25 ہزار حاصل کی اب مزید 10 ہزار کی ضرورت تھی۔ گھر کی ساری بچت اور ہاتھ کا سارا بجٹ نکال کر پوری فیس کا انتظام ہوسکا۔ مولانا آزاد ماڈل کالج، نامپلی کے سرکاری کالج سے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرنے والی محمدی بیگم نے بارہویں میں بھی 97.6 فیصد مارکس حاصل کیے اور پھر ایک سال ایک خانگی ادارے میں طویل مدتی کوچنگ حاصل کی۔ خانگی ادارے میں کوچنگ کیسے حاصل کی اس کے متعلق انیس فاطمہ نے بتلایا کہ وہ 50ہزار کی چٹھی کی اسکیم میں شریک تھے اور ہر مہینہ 12 ہزار ادا کر تے تھے۔ یعنی اس لڑکی کے گھر والوں نے قرضے لیے تو اپنی بچی کی تعلیم کے لیے اس کے علاوہ انیس فاطمہ کے شوہر شیخ مقبول نے بھی قرضہ لیا تھا۔ جی ہاں انہوں نے فینانس پر آٹو لیا تھا جس کی ماہانہ 5 ہزار کی قسط وہ آج بھی ادا کرتے ہیں۔
محمدی بیگم کے بہتر مستقبل کے لیے صرف اس کے والدین کے ہاتھ نہیں بلکہ نانا نانی کے ہاتھ بھی اٹھتے ہیں۔ وہ اس لیے یہ لڑکی چادر گھاٹ کے جس خستہ حال گھر میں رہتی ہے وہ نانا محمد عبدالمجید صاحب کا ہے۔ 75 سال کے مجید صاحب کہتے ہیں کہ انیس فاطمہ کی شادی کے کچھ مہینے بعد ہی وہ سسرال سے الگ ہوگئی تھی اور چونکہ انیس فاطمہ کے شوہر آٹو چلاتے تھے ان کے معاشی حالات ٹھیک نہیں تھے۔ تو انہوں نے اپنی بیٹی داماد کو بھی اپنے گھر میں رکھ لیا۔ نانا بھی اپنی نواسی کی کامیابی پر بڑے خوش نظر آتے ہیں او رمیڈیا والے جب بھی ان کے گھر آتے ہیں چائے پلاکر وہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
اور اس کم عمر لڑکی نے یہ بھی واضح کردیا کہ طلبہ برادری اس بات کو سمجھ لیں کہ قسمت بھی صرف انہی کا ساتھ دیتی ہے جو اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ کرتے ہیں اور بعض بندے صرف مال و دولت پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے ایمان کو خراب کرلیتے ہیں۔محمدی بیگم کی والدہ نے دسویں کلاس میں پڑھائی کے دوران اپنی لڑکی کی شادی کی تجویز کو مسترد کر کے اللہ کی ذات پر بھروسہ کیا۔ خود محمدی بیگم نے اپنی طرف سے ہر ممکنہ کوشش کی اور فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیا اور کامیابی ملنے کے بعد یہ لڑکی دوبارہ اللہ کے حضور سربسجود ہوکر شکر ادا کرنے لگی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اچھا رینک دلایا۔ وہ سرکاری کوٹہ میں ایم بی بی ایس میں داخلہ حاصل کرسکی ہے۔ محمد بیگم کے مطابق خدا نے اس کو صرف رینک ہی نہیں دلایا بلکہ فیس کی فراہمی کے لیے نیک بندوں کو توفیق عطا کی۔
قارئین کرام کتنے نوجوان ہمارے سماج میں ایسے ہیں جن کے لیے عربی ڈش (شاورما) کھانا معمول کی بات ہے۔ لیکن جب پہلی مرتبہ محمدی بیگم اپنے نانا اور ماں باپ کے ساتھ میڈیکل کالج میں ایڈمیشن لینے گئی تو واپسی میں اس لڑکی نے خواہش کی کہ وہ شاورما کھانا چاہتی ہے۔اب باپ نے اپنا آٹو شاورما کی دوکان پر روک دیا اور آٹو سے چار لوگ اترے اور صرف ایک ہی شاورما خریدا۔ محمد بیگم نے پوچھا تو نانا نے کہا کہ میں تو باہر کا کھانا بالکل پسند نہیں کرتا ہوں۔ والد نے کہا کہ میرا پیٹ تو خراب ہے۔ میں تو نہیں کھائوں گااور ماں کا جواب آیا کہ میں تو ابھی باہر نکلتے وقت ہی کھانا کھائی تھی۔ محمدی بیگم نے آدھا شاورما کھایا اور باقی کا شاورما پارسل کی شکل میں گھر کو آیا جہاں دیگر تین بہنوں نے مل کر اسے کھایا۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ محمدی بیگم کے سارے تعلیمی سفر کو آسان بنائے اور اس کی مدد کے اسباب پیدا فرمائے۔ مجھے نہیں معلوم کہ محمدی بیگم کی تعلیمی کامیابی سے کتنے سبق سیکھے جاسکتے ہیں لیکن مجھے یہ ضرور سمجھ میں آیا کہ اگر میں اپنا احتساب نہ کروں تو شائد میری پکڑ ہو۔
فَبِاَیِّ آلَائِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ o
بہت سارے نوجوان جو حالات کا رونا روتے ہیں ان کے لیے محمدی بیگم کی جدو جہد ایک قیمتی سبق سے کم نہیں۔ کیا ہم ان اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہیں۔ ذرا غور کریں سونچیں قبل اس کے کہ یہ صلاحیت ہمیشہ کے لیے چھین لی جائے۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]