محکمہ اقلیتی بہبود میں تازہ بحران، عبدالحمید طویل رخصت پر روانہ

   

وقف بورڈ اور حج کمیٹی کی خدمات متاثر ہونے کا اندیشہ، حکومت الجھن میں

حیدرآباد۔15 ۔ جولائی (سیاست نیوز) محکمہ اقلیتی بہبود کا بحران تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ایک ادارہ کا مخلوعہ عہدہ پر کرنے تک دوسرا ادارہ خالی ہورہا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران حکومت کو اقلیتی اداروں پر دو مرتبہ انچارج عہدیداروں کا تقرر کرنا پڑا۔ حج کیمپ کے آغاز سے قبل آج محکمہ میں اس وقت پھر بحران پیدا ہوگیا جب چیف اگزیکیٹیو آفیسر وقف بورڈ عبدالحمید طویل رخصت پر روانہ ہوگئے جنہیں جمعہ کے دن اگزیکیٹیو آفیسر حج کمیٹی کی زائد ذمہ داری دی گئی تھی۔ عبدالحمید جو آر ڈی او ظہیرآباد کے عہدہ پر فائز تھے، انہیں حکومت نے چیف اگزیکیٹیو آفیسر وقف بورڈ مقرر کیا تھا۔ وہ اس عہدہ کیلئے تیار نہیں تھے کیونکہ محکمہ مال میں مزید چند ماہ تک خدمات جاری رہنے پر انہیں جوائنٹ کلکٹر کے عہدہ پر پروموشن آنے والا تھا۔ حکومت کے دباؤ کے تحت انہوں نے وقف بورڈ کی ذمہ داری سنبھال لی لیکن وہ اوقافی امور پر توجہ نہیں دے پا رہے تھے۔ مستقل چیف اگزیکیٹیو آفیسر کے تقرر کیلئے حکومت نے ان کی خدمات محکمہ مال سے حاصل کی تھی۔ عبدالحمید جو پہلے ہی وقف بورڈ کی ذمہ داری سے خوش نہیں تھے۔ انہوں نے حکومت کو تحریری طورپر درخواست دیتے ہوئے سبکدوش کرنے کی خواہش کی تھی۔ ابھی یہ معاملہ ختم نہیں ہوا کہ حکومت نے انہیں حج کمیٹی کی زائد ذمہ داری سونپ دی جس کے فوری بعد عبدالحمید نے آج طویل رخصت حاصل کرلی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے 25 دن کی میڈیکل رخصت کی درخواست دے دی ہے۔ اس طرح پھر دو ادارے عہدیداروں کے بغیر ہوگئے جن میں وقف بورڈ اور حج کمیٹی شامل ہیں۔ 12 جون کو حکومت نے جی او آر ٹی 94 جاری کرتے ہوئے بی شفیع اللہ آئی ایف ایس کو اردو اکیڈیمی اور حج کمیٹی کی اضافی ذمہ داری دی تھی۔ اس کے ٹھیک ایک ماہ بعد شفیع اللہ کی خواہش پر انہیں دونوں ذمہ داریوں سے سبکدوش کرتے ہوئے 12 جولائی کو جی او آر ٹی 113 جاری کیا گیا جس میں شاہنواز قاسم کو اردو اکیڈیمی اور عبدالحمید کو حج کمیٹی کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ حکومت اب وقف بورڈ اور حج کمیٹی پر تقررات کے سلسلہ میں الجھن کا شکار ہے کیونکہ محکمہ میں عہدیداروں کی کمی ہے اور دیگر محکمہ جات کے عہدیدار اقلیتی بہبود میں خدمات انجام دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اقلیتی اداروں کے معاملات میں سیاسی اور بعض اعلیٰ عہدیداروں کی مداخلت بیجا کے سبب وقتاً فوقتاً بحران پیدا ہورہا ہے جس سے اقلیتی اداروں کی کارکردگی ٹھپ ہوچکی ہے۔