مختلف ریاستیں، مختلف حکمت عملی بی جے پی کو نقصان کا امکان

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخابات جاری ہیں جن میں میزورم، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، راجھستان اور جنوبی ہند کی اہم ترین ریاست تلنگانہ شامل ہیں۔ ان ریاستوں میں الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق 7 نومبر تا30 نومبر رائے دہی ہورہی ہے( ریاست تلنگانہ میں 30 نومبر کو رائے دہی ہوگی، تمام 119 اسمبلی حلقوں میں انتخابی اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی ہے) جہاں تک ہندوستانی انتخابات کا سوال ہے یہ گذرتے وقت کے ساتھ انتہائی دلچسپ اور تجسس سے پُر ہوتے جارہے ہیں۔ ان انتخابات کے بارے میں عام و خاص میں تجسس بڑھتا ہی جارہا ہے۔ عام طور پرا یک الیکشن میں ایسے امیدوار مقابلہ میں اُترتے ہیں جن کا کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہوتا ہے اور سیاسی جماعت کا ایک رہنما ہوتا ہے جو اپنی پارٹی کے امیدواروں کی انتخابی مہم چلاتا ہے اور پھر جو پارٹی جملہ نشستوں میں سے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرتی ہے وہ اپنے بَل بوتے پر یا پھر اپنی تائید وحمایت کرنے والی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملکر حکومت تشکیل دیتی ہے لیکن ان تمام چیزوں یا معاملات کو بی جے پی نے اُلٹ پلٹ کرکے رکھ دیا ہے اور اس کا سارا کریڈٹ بی جے پی کے منہ پھٹ اور ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے لیڈر نریندر مودی کو جاتا ہے۔
جہاں تک وزیر اعظم نریندر مودی کا سوال ہے بی جے پی میں جان بوجھ کر ان کی ایسی امیج بنائی گئی ہے کہ پارٹی میں ان جیسا کوئی لیڈر نہیں اور بی جے پی کو وہی کامیابی دلاسکتے ہیں، لیکن جب کسی ریاست میں بی جے پی کو شرمناک شکست ہوتی ہے تو اس ناکامی کی ذمہ داری کسی اور کے سر پر ڈال دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مودی نے بی جے پی کے اُصول و ضوابط کو ازسرِنو رقم کیا ہے اور کچھ حد تک الیکشن یا انتخابات کے قواعد و ضوابط کو بھی از سرِ نو تحریر کیا ہے۔ انہوں نے اپنی خواہش اور اپنی مرضی مکمل طور پر تھونپ دی ہے یا اسے نافذ کیا ہے کہ تمام ناراض عناصر اور ان کے مخالفین دب کر رہ گئے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جن پانچ ریاستوں میں انتخابات ہورہے ہیں ‘ وزیر اعظم نریندر مودی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے درجنوں مرکزی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ ریاستی انتخابات میں نہ چاہتے ہوئے بھی حصہ لے رہے ہیں کیونکہ وزیر اعظم کی ہدایت ہے جس کے سامنے یہ تمام کے تمام بے بس و مجبور ہیں۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو جن پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں، مودی ہر حلقہ اسمبلی میں بی جے پی کے امیدوار ہیں، پارٹی کو واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ صرف مودی کے نام پر ووٹ مانگے جائیں۔ عوام سے ووٹ مانگتے ہوئے خود مسٹر مودی نے دعویٰ کیا ہے کہ بی جے پی کیلئے ووٹ دراصل ان ( مودی ) کیلئے ووٹ ہوگا جس سے ان کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی نے ان تمام 5 ریاستوں میں عہدہ چیف منسٹری کے امیدوار کے طور پر تاحال کسی لیڈر کا نام پیش نہیں کیا، یہاں تک کہ مدھیہ پردیش جیسی بی جے پی زیر اقتدار ریاست میں مسٹر شیوراج سنگھ چوہان کا نام عہدہ چیف منسٹری کے امیدوار کی حیثیت سے پیش نہیں کیا گیا یا پھر راجھستان یا چھتیس گڑھ جیسی ریاستوں میں وسندھرا راجے سندھیا اور مسٹر رمن سنگھ کے نام پیش نہیں کئے گئے جو اپنی اپنی ریاستوں میں بی جے پی کے انتہائی مقبول ترین چہروں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔اس کے برعکس میزورم اور تلنگانہ جیسی ریاستوں میں بی جے پی کا کوئی اثر نہیں ہے۔ کانگریس اور مقابلہ کرنے والی دوسری جماعتیں روایتی انداز میں جارہی ہیں اور ان سیاسی جماعتوں نے اکثر حلقوں میں ایسے امیدواروں کو میدان میں اُتارا ہے جن کی اپنی انفرادی شناخت ہے۔ مثال کے طور پر چھتیس گڑھ اور راجھستان میں کانگریس کی انتخابی مہم وہاں کے ریاستی چیف منسٹر چلارہے ہیں جبکہ مدھیہ پردیش میں کانگریس کے سابق چیف منسٹر انتخابی مہم کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں۔ ریاست تلنگانہ میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ بڑی شدت سے انتخابی مہم چلارہے ہیں جبکہ میزورم میں چیف منسٹر مسٹر زدرمتھنگا نے اپنی اور اپنے اتحادی جماعتوں کیلئے انتخابی مہم چلائی۔
آپ کو یہ بھی بتادیں کہ گذشتہ کئی ماہ سے نریندرمودی سیاسی جماعتوں کی جانب سے عوام کیلئے کی جارہی کئی مراعات کی پیشکش کے خلاف بات کررہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مودی جی کو اپنی پارٹی کی جانب سے عوام سے کئے گئے بلند بانگ دعوے اور وعدے دکھائی نہیں دیتے۔ ایک بات ضرور ہے کہ یہ رقم کسی نہ کسی کی جانب سے ادا کی گئی ہو، اس کا حساب کتاب بھی ہوگا ، ایسے میں الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی نہیں کرسکتا۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بیروزگاری اور مہنگائی دو اہم مسائل ہیں۔ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ مرکزی حکومت کی پالیسیوں اور پروگرامس نے روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا کئے۔ بیروزگاری کے اعداد و شمار ( بی ایل ایف ایس اور پرائیویٹ CMIE) کے معاملہ میں بی جے پی کے دعوؤں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ قیمتوں میں اضافہ کی جہاں تک بات ہے روایتی طور پر اس کی ذمہ داری مرکزی حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن بی جے پی نے دونوں مسائل پر اپنے قدم پیچھے ہٹالئے اور مسٹر مودی نے بڑی احتیاط سے انہیں نظر انداز کردیا اور اپنی تقاریر میں ان مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی۔ یہی نہیں وزیر اعظم نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کو بھی اپنی تقاریر میں بری طرح نظرانداز کردیا ۔ دوسری طرف وزیر داخلہ نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کی اہمیت گھٹاتے ہوئے یہ بتایا کہ بی جے پی اس طرح کے مسائل کو اہمیت نہیں دیتی تاہم کانگریس نے ذات پات پر مبنی مردم شماری ، بیروزگاری اور قیمتوں میں اضافہ کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا۔ ایک بات تو ضرور ہے کہ جن 5 ریاستوں میں انتخابات ہورہے ہیں بی جے پی کا موقف کمزور دکھائی دیتا ہے، وہ صرف تین ریاستوں ( چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجھستان ) میں ایک سنجیدہ چیلنج ہے اور مخالف بی جے پی ووٹ تقسیم کرنے کوئی تیسرا فریق نہیں ہے۔ اگر بی جے پی تین ریاستوں میں سے دو ریاستوں میں ناکامی ہوئی ہے تو اس کا اسکور صرف ایک ہوگا۔ اس کے برعکس کانگریس تمام پانچ ریاستوں میں سنجیدہ دعویدار ہے۔
میں نے جو جائزہ لیا ہے اس مرتبہ کانگریس کا اسکور بی جے پی سے کہیں زیادہ بہتر رہے گا۔ اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ بی جے پی اچھے دن کے بارے میں بات کرنے کے قابل بھی نہیں رہی، وہ سالانہ 2 کروڑ ملازمتیں دینے سے متعلق وعدے پر بات کرنے کے موقف میں نہیں ہے۔ PLFS کے سرکاری سروے کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی عوام کی آمدنی میں بہتری کا اب دعویٰ نہیں کرسکتی۔2017-18 اور 2022-23 چھ برسوں کے درمیان غریب‘ غریب ہی رہے، ورکروں کے مختلف زمروں کی ماہانہ اوسط آمدنی میں بمشکل اضافہ ہوا ہے۔ بہر حال جس طرح ملک کی معیشت کی حالت زار ہے میں سمجھتا ہوں کہ ان 5 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کئی لوگوں کو حیران کردیں گے اور ساتھ ہی یہ 2024 کے عام انتخابات سے متعلق دلچسپ سوالات اُٹھائیں گے۔