مخطوطہ شناسی کو نصاب میں شامل کرنے پر زور

   

حیدرآباد9 فروری(یواین آئی) تلنگانہ اسٹیٹ اورینٹل مینو اسکرپٹس لائبریری اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے احاطہ میں شعبہء اُردو و عربی، فارسی، مرہٹی اور کنڑ کے اشتراک سے پروفیسر ڈی۔ رویندر پرنسپل آرٹس کالج، عثمانیہ یونیورسٹی کی صدارت میں مخطوطہ شناسی کے موضوع پر ایک روزہ ورک شاپ کا اہتمام کیاگیا۔ ڈاکٹر سُبّا راو ڈاٹریکٹر تلنگانہ اسٹیٹ اورینٹل مینو اسکرپٹس لائبریری نے تمام مہمانوں اور حاضرین کا استقبال کرتے ہوئے اپنے استقبالیہ کلمات میں اس لائبریری میں موجود عربی، فارسی اور اُردو کے (17124) مخطوطات کے (47) فنون کے تحت ترتیب دیئے جانے اور ان میں بیشتر مخطوطات کی طلائی تحریروں (Gold Coated) ہونے کی نہ صرف واقف کروایا بلکہ کچھ اہم مخطوطات کو مشاہدہ کے لیے بھی رکھا۔ مہمانِ خصوصی پروفیسر فضل اللہ مکرم صدر شعبہ اُردو، حیدرآباد سنٹرل یورنیورسٹی نے اپنے خطاب میں نادر مخطوطات کی حامل اس لائبریری کو ادبی مخزن اور ڈاٹریکٹرپی۔ سُبّا راو کو اس خزانے کا محافظ خزانچی قرار دیتے ہوئے ریسرچ اسکالرزکی ترغیب کے لیے مستقبل میں بھی ایسے پروگرامس جن میں مشق کی گنجائش فراہم ہو منعقد کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ پروفیسر نسیم الدین فریس نے مخطوطات کی اہمیت پر مختصر مدتی ورکشاپس کے انعقاد اورمخطوطہ شناسی کو نصاب میں شامل کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے عربی، فارسی اور اُردو کے مخطوطات کتب خانوں ہی میں نہیں بلکہ بنارس کے مندروں اورمٹھوں میں بھی ان کے موجود ہونے کا انکشاف کیا۔پروفیسر اشرف رفیع نے اپنے کلیدی خطبے میں ڈاکٹر سُبّا راو ڈاٹریکٹر تلنگانہ اسٹیٹ اورینٹل مینو اسکرپٹس لائبریری کی اس ابتدائی کوشش کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ مدت کے بعد اس لائبریری میں زندگی دیکھنے کو ملی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ دولت چرائی جاسکتی ہے لیکن علم چرایا نہیں جاسکتا لہذا علمی خزانوں سے مالامال ہوتے ہوئے لٹنے پٹنے سے بے فکر ہونے کو عافیت جانیں۔ انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں ان مخطوطات میں چھپے انمول خزانوں کو منظر عام پر لانے کے لیے تمام جامعات کے اساتذہ سے اپنے اپنے ریسرچ اسکالرزکو اس جانب توجہ مبذول کروانے کی ضرورت پر زور دیا۔پرنسپل ڈی رویند نے اپنے صدارتی خطاب میں ڈائریکٹر اور تمام مہمانوں اور شرکائے محفل کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یقینًا یہ لائبریری ایک علمی خزانہ ہے ہم سب کو اس جانب توجہ کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔ ڈاکٹر معید جاوید صدر شعبہ اُردو، جامعہ عثمانیہ نے اس ورکشاپ کے انعقاد میں مرکزی کردار ادا کیا۔