پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
علاقہ قومی دارالحکومت مختصر الفاظ میں ہم اسے دہلی کہہ سکتے اور نمائندہ حکومت اس کے نظم و نسق چلانے کی حقدار یا مستحق ہوتی ہے ۔ سال 1992 ء میں پارلیمنٹ نے اُنھیں ( منتخبہ حکومت یا نمائندوں ) کو یہ اختیارات تفویض کیا اور اس کیلئے دستور ہند میں دفعہ 239AA شامل کی گئی تب سے ہی دہلی کی این سی ٹی حکومت (GNCTD) کیلئے ایک خاص مدت کے بعد انتخابات ہوتے رہے ہیں ۔ آپ کو بتادیں کہ دہلی کے پہلے انتخابات میں بی جے پی کو کامیابی ملی جبکہ اس کے بعد مسلسل تین انتخابات میں کانگریس کو اقتدار حاصل ہوا ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 1993 اور 1998 ء کے دوران مدن لال کھرانہ ، صاحب سنگھ ورما اور سشما سوراج بی جے پی کے وزیراعلیٰ رہے جبکہ 1998 ء تا 2013 ء مسلسل تین مرتبہ کانگریس کی شیلا ڈکشٹ کو عہدہ وزارت اعلیٰ پر فائز کیا گیا ۔ ان تمام کو دستور کی دفعہ 239AAکے تحت کئی لفٹننٹ گورنرس (ایل جی ) کے ساتھ کام کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی لیکن عام آدمی پارٹی کے چیف منسٹر اروند کجریوال اور ان کی حکومت کو موجودہ لیفٹننٹ گورنر کے ساتھ کام کرنے میں قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
آپ کو بتادیں کہ لوک سبھا انتخابات 2014 ء کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور کانگریس کے ساتھ ساتھ نئی قائم کردہ عام آدمی پارٹی پر برتری حاصل کرنے کی خاطر بی جے پی نے 2013 ء کے دہلی اسمبلی انتخابات میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دے گی لیکن 2013 ء کے انتخابات میں بی جے پی کو عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن 2014 ء کے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کے بعد بی جے پی نے GNCTD پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تاہم عدالت عظمیٰ ( سپریم کورٹ ) نے دستور کی دفعہ 239AA کی مرکزی حکومت نے جو تشریح و توضیح کی اسے مسترد کردیا اور اس قانون کو کالعدم قرار دیا ۔اس طرح حقیقی اقتدار و اختیارات دہلی حکومت کی مجلس وزراء کے ہاتھوں میں آگئے لیکن جب اختیارات کے حصول کی جنگ شروع ہوئی تو کوئی بھی بآسانی شکست قبول کرنے کیلئے تیار نہیں رہا ۔
بی جے پی نے پرزور انداز میں یہ کہنا شروع کیا کہ ’’سرکاری خدما ت ‘‘ ( مطلب سرکاری دفاتر) پر صرف اور صرف لیفٹننٹ گورنر کا کنٹرول ہوگا اور ازروئے دستور اس معاملہ میں حکومت کو لیفٹننٹ گورنر کے تحت کام کرنا ہوگا ، اُن کے حکم کے تابع رہنا ہوگا تاہم 11 مئی 2023 ء کو سپریم کورٹ نے پھر اس امر کا اعادہ کیا اور کہاکہ سرکاری خدمات پر GNCTD مقننہ ( اسمبلی ) کی حامل ہے اور عاملانہ اختیارات رکھتی ہے ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو قبول کرنے کی بجائے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے چند دن بعد ہی مرکزی حکومت نے دہلی کی سرکاری خدمات پر لیفٹننٹ گورنر کے کنٹرول کیلئے ایک آرڈیننس لایا اور پھر پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں مرکزی حکومت نے اپنے آرڈیننس کو قانون میں تبدیل کردیا اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اسے منظور بھی کروایا ۔ دہلی بل پر جو مباحث ہوئے وہ سب متوقع تھے اور بی جے پی نے بہت ہی کوتاہ ذہنی کے انداز میں اس کی آئینی تشریح کی ۔ اس کا دعویٰ تھا کہ یہ بل دستور کی کسی دفعہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا ۔ جواب میں اپوزیشن نے حکومت اور بی جے پی کے موقف کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہاکہ یہ بل کئی بنیادوں پر غیرآئینی ہے اور دانشمندی اسی میں ہے کہ حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے ۔
ویسٹ منسٹر نمونہ : میرے خیال میںپارلیمنٹ میں ہوئے مباحث میں اصل موضوع ، اصل مسئلہ کو نظرانداز کردیا گیا حکومت دہلی میں سرکاری خدمات پر کنٹرول کیلئے ایسا لگتا ہے کہ فوجی آمریت ( تازہ مثال نائجیریا) کے نمونہ سے ہٹ کر (چین ) کے یک جماعتی ڈکٹیٹرشپ اور پھر ( امریکہ ) کی صدارتی حکومت کے نمونہ سے صدارتی کے ساتھ ساتھ پارلیمانی حکومت ( فرانسیسی نمونہ ) سے ہمہ جماعتی حکومت (جیسا کہ کئی یوروپی ملکوں میں ہے ) منتخبہ آمریت ( ہنگری کا نمونہ ) سے لیکر خالص پارلیمانی جمہوریت ( برطانیہ ) کے طرز کو اختیار کرسکتی ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دستور کو اپنایا گیا تو ہندوستان نے کسی کا انتخاب کیا کس طرز حکمرانی کو پسند کیا اور کسے اپنایا ؟ غیرواضح طورپر وہ ویسٹ منسٹر ماڈل کی پارلیمانی جمہوریت تھی ۔ پارلیمانی جمہوریت کی جو بنیادیں ہیں وہ دراصل منتخبہ دارالعوام ، ایک حلقہ کی نمائندگی کرنے والے ارکان پارلیمان ، وزیراعظم (یا چیف منسٹر ) کے ساتھ ایک مجلس وزراء ہے جو اسمبلی یا پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں اور پارلیمنٹ عوام کو جوابدہ ہے جبکہ دوسرے دستوری ادارے دستور کے ذریعہ تخلیق کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طورپر سپریم کورٹ ، الیکشن کمیشن اور پبلک سرویس کمیشن وغیرہ ، سیول سرویس ، حکومت نے حسب ضرورت تشکیل دی ہے یعنی ضرورت کے مطابق اس کی تشکیل عمل میں لائی جس کے ذریعہ سرکاری ملازمین کے تقررات عمل میں لائے جاتے ہیں اور یہ سرکاری ملازمین حکومت ، وزراء کو جوابدہ ہوتے ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدر یا گورنر کا کیا رول ہے ؟ آیا وہ مرد گورنر ؍ خاتون گورنر جس عہدہ پر فائز ہے وہ ہیڈ آف اسٹیٹ کا عہدہ ہے اور ہیڈ آف اسٹیٹ کا عہدہ ایک رسمی اتھارٹی کی علامت ہے لیکن اس کے پاس کوئی حقیقی اختیارات یا طاقت نہیں ہے جو مجلس وزراء میں موجود ہے ۔ بہرحال سوال یہ پیدا ہوگا کہ کیا آئین یہ کہتا ہے کہ اصل ا ختیارات مجلس وزراء کے پاس ہیں اور صدر مملکت صرف رسمی اختیارات کی علامت ہے ۔ اس کا جواب ’’ہاں ‘‘ہے اور تین جادوئی الفاظ ’’ مدد اور مشورہ ‘‘ میں پنہاں ہے ۔ یہ الفاظ آئینی قانونی تاریخ میں خاص معنی رکھتے ہیں ۔ مدد یا امداد کا مطلب یہ نہیں کہ کسی دوسرے فرد کی مدد کیلئے آگے بڑھا جائے ۔
مشورہ کا مطلب یہ نہیں کہ طلب کیا گیا یا غیرمطلوبہ مشورہ پیش کیا جائے ۔ مدد اور مشورہ حقیقت میں پارلیمانی جمہوریت کی خوبی اور اس کانچوڑ ہے ۔ یہ جادوئی الفاظ دستور کی دفعات 163,74 اور 239AA ہیں اور جو بالترتیب وزیراعظم ، صدر ، چیف منسٹر ، GNCTD ( دہلی ) کے چیف منسٹر اور لیفٹننٹ گورنر کے کردار کے تناظر میں ہیں۔ بابا صاحب امبیڈکر نے ان جادوئی الفاظ کی توضیح و تشریح کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر مذکورہ عہدہوں پر فائز شخصیتوں کے مشوروں اور تجاویز کے برعکس یا متضاد کچھ بھی نہیں کرسکتا اور نہ ہی وہ ان کے مشوروں کے بغیر کوئی کارروائی کرسکتا ہے ۔ اس ضمن میں جسٹس کرشنا ایئر نے جو کچھ کہا ہے وہ کافی ہے ۔ انھوں نے اپنے فیصلہ میں کہا تھا کہ صدر اور گورنر اپنی دستوری اختیارات کا استعمال صرف اور صرف مجلس وزراء کے مشوروں پر کریں گے ۔ گزشتہ ہفتہ پارلیمنٹ میں جو بل منظور کیا گیا اس کے تحت لیفٹننٹ گورنر کو سرکاری خدمات کے ضمن میں سارے اختیارات سونپ دیئے گئے ہیں جس میں چیف منسٹر صرف ہاں ہی کہہ سکتا ہے ۔ یہ بل گورنمنٹ آف نیشنل کیپٹل ٹریٹری آف دہلی کی بجائے گورنمنٹ آف نیشنل کیپٹل ٹریٹری آف دہلی ( تقرر وائسرائے ) بل 2023 ہونا چاہئے تھا۔ بہرحال دہلی کے 3,29,41,309 عوام نے GNCTD میں پارلیمانی جمہوریت پر مہلک حملوں کا مشاہدہ کیا اور ان لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح شدید زخمی پارلیمانی جمہوریت کو ایمرجنسی وارڈ تک پہنچایا گیا ۔ ایسے میں دہلی کے عوام اس بات کی دعا کریں گے کہ سپریم کورٹ متاثرہ کا تحفظ کرے ۔