مولانا محمود مدنی کے’ جب جب ظلم ہوگا تب تب جہاد ہوگا ‘کے بیان پر گورنر بہار عارف محمد خان کا رد عمل
پٹنہ۔30نومبر ( ایجنسیز )بہار کے گورنر عارف محمد خان نے جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا محمود مدنی کے جہاد سے متعلق بیان پر رد عمل دیتے ہوئے دار العلوم دیوبند کو نشانہ بنایا۔ عارف محمد خان نے کہا کہ مولانا محمود مدنی کے بیان سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا اور قرآن بھی وہی کہہ رہا ہے جو محمود مدنی نے اپنے حالیہ بیان میں کہا لیکن ان کے یہاں دار العلوم دیوبند میں ان کے بیان کے برعکس جہاد کی کچھ اور تعلیم دی جا رہی ہے۔عارف محمد خان نے کہا کہ جیسا کہ مولانا محمود مدنی نے کہا اور قرآن کے بھی مطابق جہاد کا مطلب کمزوروں، غریبوں یا مظلوموں پر ظلم کی حمایت میں کھڑا ہونا اور آواز اٹھانا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا ہی حقیقی جہاد ہے تاہم اسی کے ساتھ انہوں نے کہا کہ دار العلوم دیوبند کی کتاب میں جہاد کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ شریعت میں جہاد دین حق کی طرف بلانے اور جو اسے قبول نہ کرے اس سے جنگ کرنے کو کہتے ہیں۔عارف محمد خان نے سنگین الزام لگایا کہ مدارس اور بہت سے اسلامی تعلیمی ادارے بچوں کو جہاد کا صحیح مفہوم نہیں سکھا رہے ہیں۔ مولانا مدنی کو براہ راست نشانہ بناتے ہوئے گورنر نے کہا کہ مدنی صاحب ایک بڑے تعلیمی ادارے سے منسلک ہیں انہیں دیکھنا چاہیے کہ وہاں بچوں کو کیا پڑھایا جا رہا ہے۔جب تک ظلم رہے گا، تب تک جہاد ہو گا اس سے اختلاف کرنا بڑا مشکل کام ہے کہ ظلم کہیں بھی ہوگا جو قرآنی اصطلاح ہے وہ یہ ہے کہ صرف آپ ظلم نہیں بلکہ اگر کسی کمزور یا غریب پر ظلم ہو رہا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ اس کے لیے آواز اٹھائیے اور اس کی مدد کیجیے۔ لیکن مسئلہ یہاں آتا ہے کہ عوام کے بیچ میں تو وہ یہ بیان دیتے ہیں لیکن جس تعلیمی ادارے سے ان کا تعلق ہے وہاں پر وہ پڑھا کیا رہے ہیں کہ جہاد کیا ہے؟ ذرا اس پر غور کر لیجیے۔ انہیں کے یہاں پڑھائی جا رہی ایک کتاب کی سطر نقل کرتا ہوں۔ اس کے مطابق شریعت میں جہاد دین حق کی طرف بلانے اور جو اسے قبول نہ کرے اس سے جنگ کرنے کو کہتے ہیں۔دراصل مولانا محمود مدنی نے حال ہی میں مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں منعقدہ جمعیت علمائے ہند کی مجلس منتظمہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں نے اسلام کی مقدس اصطلاحات مثلاً جہاد کے لفظ کو ایک گالی، فساد اور تشدد کا ہم نام بنا دیا ہے۔ لو جہاد، لینڈ جہاد، تعلیم جہاد، تھوک جہاد وغیرہ جیسے جملے استعمال کر کے مسلمانوں کی سخت دل آزاری اور ان کے مذہب کی توہین کی جا رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ افسوس کا مقام ہے کہ حکومت اور میڈیا میں بیٹھے ذمہ دار افراد بھی اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے اور نہ ایک کمیونٹی کی دل آزاری کی پرواہ کرتے ہیں۔ مولانا محمود مدنی نے آگے کہا کہ یہ واضح ہونا چاہے کہ اسلام میں جہاد ایک مقدس دینی فریضہ ہے۔ جہاد قرآن میں کئی معنوں کے لیے استعمال ہوا ہے، فرض سے لے کر سماج و انسانیت کی بھلائی، ان کی سر بلندی اور ان کے عزت و وقار کے قیام کے لیے ہوا ہے۔ جہاں جنگ و قتال کے معنی میں استعمال ہوا ہے، وہ بھی ظلم و فساد کے خاتمے اور انسانیت کی بقا کیلئے استعمال ہوا ہے۔ اس لیے جب جب ظلم ہوگا، تب تب جہاد ہوگا۔ میں اس کو دوبارہ کہتا ہوں، جب جب ظلم ہوگا تب تب جہاد ہوگا۔اسی کے ساتھ انہوں نے عدالتوں پر حکومت کے زیر اثر کام کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ بابری مسجد کے فیصلے اور اس طرح کے کئی دیگر فیصلوں کے بعد یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ عدالتیں حکومتوں کے دباؤ میں کام کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ اپنا فرض ادا نہیں کرتی تو وہ سپریم کورٹ کہلانے کی مستحق نہیں ہے۔