مذاکرات تقریباً مکمل ، فوج کے تخلیہ کی تاریخ کا تعین باقی: طالبان

   

امریکہ کی ایماء پر افغانستان امن مذاکرات

دوحہ ،4اگست (سیاست ڈاٹ کام) افغانستان کے طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ سے 80 فیصد مذاکرات مکمل ہوچکے ہیں تاہم اس میں امریکی فوج کے انخلا کے ٹائم فریم پر اب بھی بحث ہونا باقی ہے ۔ غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بتایا کہ ‘‘ہم 80 فیصد امور پر معاہدہ کرچکے ہیں اور باقی 20 فیصد میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا اور ایک اور مسئلہ شامل ہے ’’۔انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ دوسرا ‘مسئلہ’ کیا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک چھوٹا مسئلہ ہے اور بڑا مسئلہ امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی کا ہے ۔ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے ، جب امریکہ کے سفیر برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان سے ملاقات کی۔تازہ مذاکرات کو نہایت اہم تصور کیا جارہا ہے جس میں امریکی افواج کا 18 سال بعد وسطی ایشیائی ملک سے انخلا سے متعلق پیش رفت کی امید کی جارہی ہے۔ طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’’ہم پرامید ہیں کہ مذاکرات کے اس مرحلہ میں معاہدہ کرلیں گے کیونکہ امریکہ نے اس سے قبل بھی اس جانب اشارے دئیے ہیں‘‘۔انہوں نے حال ہی میں سامنے آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کی 2020 کے صدارتی انتخابات سے قبل فوجی انخلا کے حوالہ سے رپورٹس کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ فوجی انخلا کا آغاز 14 ہزار فوج میں سے 50 فیصد کو واپس بلانے کے ساتھ کیا جائے گا۔ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ اس طرح کے اشارے دے رہا ہے تاہم انہیں اب تک مذاکرات کی ٹیبل پر یا تحریری صورت میں نہیں لایا گیا، فوجی انخلا کا وقت نہایت ضروری ہے اور ہم پرامید ہیں کہ مذاکرات کے اس مرحلہ میں فیصلہ ہوجائے گا’’۔اشرف غنی کی انتظامیہ کے ساتھ بین ا افغان مذاکرات کے امریکی مطالبہ کے حوالہ سے سوال کے جواب میں سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ اس طرح کے تمام معاملات امریکہ سے امن معاہدے کے بعد زیر بحث آئیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ‘‘انٹرا افغان ڈائیلاگ اور افغانستان میں جنگ بندی کی اہمیت ہم جانتے ہیں تاہم یہ امریکہ سے امن معاہدہ ہونے کے بعد زیر بحث آئیں گے ’’۔انہوں نے مزیدکہا کہ ‘‘امریکہ سے معاہدہ پہلا حصہ ہے اور دوسرے حصہ کا آغاز اس وقت ہوگا جب افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا پر معاہدہ کرلیں گے ’’۔انہوں نے واضح کیا کہ افغان طالبان کابل کی حکومت کو نہیں مانتے ۔ان کا کہنا تھا کہ‘‘ہم کابل حکومت کو نہیں مانتے مگر ہم اسے دیگر افغان تحریکوں کی طرح تنازع کا حصہ سمجھتے ہیں، وہ بھی انٹرا افغان ڈائیلاگ میں شامل ہوں گے تاہم یہ صرف اس وقت ہوگا جب امریکہ کے معمولات اختتام کو پہنچیں گے ’’۔