رام پنیانی
دستور نے ہمیں اپنے مذہب پر عمل اس کی تبلیغ کرنے اور دوسروں تک اپنے مذہب کو پہنچانے کا حق دیا ہے اور جہاں تک شخصی آزادی اور فرد کے حق کا معاملہ ہے اسے یہ حق حاصل ہے کہ کوئی بھی مذہب اختیار نہ کرے یا کسی بھی مذہب پر نہ چلے۔ لیکن اب جبکہ ہمارا ملک گرتی ہوئی قومی مجموعی پیداوار، بدترین معاشی صورتحال، بڑھتی قیمتوں، بیروزگاری میں اضافے، کسانوں کی خودکشیوں اور سردست کسانوں کے احتجاج کا سامنا کررہا ہے ایسے میں ہماری بعض ریاستیں کو ان تمام کی فکر کرنے کی بجائے بین مذہبی شادیوں اور تبدیلی مذہب کو لے کر بہت زیادہ فکرمند ہیں۔ بعض ایسی ریاستیں ہیں جو تبدیلی مذہب کو روکنے کے لئے قوانین متعارف کروارہی ہیں یا قوانین بنانے میں مصروف ہیں۔ پچھلے چند دہوں سے تبدیلی مذہب کے مسئلہ پر جگ ہنسائی ہو رہی ہے، لیکن سردست اس طرح کی بین مذہبی شادیوں کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ ان شادیوں کے پیچھے بھی ایک مقصد کارفرما ہے اور وہ تبدیلی مذہب ہے۔ بی جے پی کی حکمراں والی ریاستوں خاص طور پر اترپردیش تبدیلی مذہب کی کارروائی میں ملوث لوگوں کو سزا دینے کے لئے قوانین بنانے میں مصروف ہے۔ ایک طرف حکومت اس طرح کی کوششیں کررہی ہے اس کے متوازی رکھشک جیسے گروپس پیار و محبت کرنے والوں اور بین مذہبی شادی کرنے والے جوڑوں کو ہراساں کرتے جارہے ہیں۔ اس بارے میں ان کا یہ موقف ہے کہ دراصل وہ اپنے مذہب کو بچانے کے لئے یہ کام کررہے ہیں۔ تبدیلی مذہب اور وہ بھی ہندو مذہب سے کسی دوسرے مذہب میں داخل ہونے کا عمل پھر ایک بار ہمارے ملک میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اب تو اترپردیش کی حکومت ان تنظیموں کے خلاف ایک آرڈیننس لانے کی منصوبہ بندی کررہی ہے جو تبدیلی مذہب کے عمل میں ملوث ہیں۔ اس آرڈیننس کے مطابق تبدیلی مذہب میں ملوث تنظیموں کا رجسٹریشن منسوخ کردیا جائے گا اور انہیں سنگین عواقب و نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس آرڈیننس میں یہ کہا گیا ہے کہ تبدیلی مذہب سے دو ماہ قبل مقامی انتظامیہ کو نوٹس دی جائے۔ مقامی انتظامیہ اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ آیا آپ کو مذہب تبدیل کرنے کا اختیار ہے یا نہیں اور آپ نے جو ارادہ کیا ہے وہ قانونی ہے یا نہیں؟ اور حد تو یہ ہے کہ تبدیلی مذہب کرنے والوں اور انہیں اس میں مدد کرنے والوں پر ثبوت فراہم کرنے کا بوجھ بھی ڈالا جائے گا۔ اس آرڈیننس میں خصوصی طور پر درجہ فہرست قبائل و طبقات اور خواتین کا حوالہ دیا گیا ہے۔ کئی ریاستیں اب انسداد لو جہاد اور انسداد تبدیلی مذہب قوانین لانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ کئی ایسے انفرادی واقعات پیش آئے ہیں جہاں جوڑے اور ان کے رشتہ داروں کو تبدیلی مذہب اور لو جہاد کے نام پر ان گروپوں کی جانب سے ہراساں و پریشان کیا جارہا ہے۔ ریاستیں جن قوانین کے تحت مقدمات درج کررہی ہیں ان میں سے زیادہ تر دستور ہند کے مغائر یا منافی ہیں۔
تحریک آزادی کے دوران آریہ سماج نے ان تمام کو ہندو مذہب میں واپس لانے کے لئے شدی تحریک شروع کی تھی جنہوں نے ہندو مذہب ترک کرتے ہوئے دوسرے مذاہب قبول کئے تھے۔ اسی طرح تبلیغی جماعت لوگوں کو دامن اسلام میں لانے کے لئے متوازی مہم چھیڑی ہوئی تھی۔ اگر دیکھا جائے تو 20 ویں صدی میں تبدیلی مذہب کا سب سے بڑا واقعہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اور ان کے حامیوں کا ہندو مذہب ترک کرکے بدھ مذہب اختیار کرنا ہے۔ تبدیلی مذہب کا وہ واقعہ ہمیں تبدیلی مذہب کی حقیقی وجوہات کے بارے میں بتاتا ہے۔ جہاں تک ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کا ہندو مذہب ترک کرنے کا سوال ہے امبیڈکر اعلیٰ تعلیم یافتہ ایک دلت تھے اور بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب وہ واپس ہوئے تو انہیں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی جانب سے اختیار کردہ رویہ اور چھوت چھات کے طریقہ پر بہت دکھ ہوا۔ ان کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک کیا گیا۔ سماجی انصاف کے لئے اپنی جدوجہد اور اپنے لئے ایک باوقار زندگی کے لئے انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا کہ ہندو کبھی ایک قوم نہیں ہوسکتے کیونکہ ان میں ذات پات کی اونچ نیچ پائی جاتی ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہندوازم پر برہمنی اقدار چھائے ہوئے ہیں، یہی وجہ سے وہ یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوئے کہ میں ایک ہندو پیدا ہوا جو میرے ہاتھوں میں نہیں تھا لیکن میں ایک ہندو کی حیثیت سے نہیں مروں گا۔ امبیڈکر نے ببانگ دہل ہندو مذہب ترک کرتے ہوئے بدھ مذہب اختیار کیا۔ ان کے ساتھ ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین لاکھ سے زائد ہندوؤں نے بدھ ازم قبول کیا۔ قانون کی پروفیسر ثمینہ دلوائی نے اپنے ایک مضمون میں اس حقیقت کی جانب ہماری توجہ مبذول کروائی۔ اگر اس وقت موجودہ دور کے قوانین ہوتے تو پھر امبیڈکر اب تک سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔ دستور ہند کے معمار ڈاکٹر بیم راؤ امبیڈکر آزادی کے حامی تھے۔ ایسی آزادی جس میں اپنے عقیدہ و مذہب کے انتخاب کا حق حاصل ہو، یا پھر لادین یا ناستک ہونا بھی شامل ہو۔ اگر دیکھا جائے تو ماضی کی طرح جس طرح لوگوں نے اپنے پسند کے مذہب کا اور عقیدہ کا انتخاب کیا لیکن اب لوگ اس طرح کی پریکٹس سے متعلق اپنے حق کا استعمال کرنے سے گریز کررہے ہیں چونکہ ماضی میں لوگوں کو اپنے پسند کے مذہب و عقیدہ پر چلنے کی مکمل آزادی تھی اسی لئے ہندوستان میں اسلام، عیسائیت، سکھ ازم اور بدھ ازم کو پنپنے میں مدد ملی۔ اگر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ دردناک رویہ بدھ ازم کے ساتھ روا رکھا گیا۔ ہندو ازم میں پائی جانے والے اعلیٰ طبقہ نے اپنی روایتوں کے ذریعہ اسے حملوں کا نشانہ بنایا جو مکمل طور پر تصور مساوات کے خلاف تھا اور تصور مساوات بدھ ازم میں پایا جاتا ہے۔ بہرحال آج اگر کوئی اپنا مذہب تبدیل کرنے کا خواہاں ہوتا ہے تو اس کی راہ میں کئی رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔
حالانکہ تاریخ میں چھوٹے بڑے تمام کے دامن اسلام میں پناہ لینے اور عیسائی بننے کے بے شمار واقعات پائے جاتے ہیں۔ ہندوستانی تاریخ نے تبدیلی مذہب کا دو وجوہات کے باعث مشاہدہ کیا۔ ایک وجہ ذات پات کی بنیاد پر لوگوں کو حقوق سے محروم کرنا، سوامی وویکا نندا ہمیں بتاتے ہیں کہ ہندوستان کو محمڈنس یعنی اسلام کے ماننے والوں نے محروم طبقات اور غریبوں کے نجات دہندہ کے طور پر فتح کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لوگوں کا 1/5 حصہ اسلام کے ماننے والے بن گئے۔ یہ کسی تلوار کا کام نہیں تھا بلکہ مساوات کا درس تھا جس کے نتیجہ میں وہ لوگ مسلمان ہوتے گئے اور یہ سوچنا کہ یہ کام تلوار اور آگ کا ہے تو یہ بالکل پاگل پن کی انتہا کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ دوسری جو وجہ ہے وہ یہ ہے کہ غریب و محروم ہندوؤں کی خواہش تھی کہ وہ زمین داروں اور پجاریوں کے تسلط سے آزاد ہوں، ان سے آزادی حاصل کریں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی بنگال کے کاشتکاروں میں آپ ہندوؤں سے زیادہ مسلمانوں کو دیکھیں گے کیونکہ وہاں بہت زمیندار تھے (سوامی وویکا نندا کی منتخب تحریریں، جلد نمبر 3، ایڈیشن نمبر 12، 1979، صفحہ نمبر 294) یہ سطور سوامی وویکا نندا کے اقوال سے اخذ کئے گئے ہیں جو
“Proletariat! wing Eqal Rights”
ادویتا آشرم، کولکتہ، 1984، صفحہ نمبر 6 سے اخذ کئے گئے۔ مذہب تبدیل کرنے کے کئی واقعات روحانی سفر اور سکون کی تلاش کے ساتھ ساتھ سماجی روابط کے نتیجہ میں پیش آئے۔ یہاں تک کہ بعض فاتح بادشاہ شکست خوردہ بادشاہوں یا راجاؤں کے لئے یہ شرط عائد کرتے تھے کہ وہ مذہب تبدیل کریں۔ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے اس سرزمین پر صوفی سنتوں نے اسلام کو متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے حُسنِ اخلاق اور سچائی کے باعث بے شمار انسانوں نے دامن اسلام میں پناہ لی۔ ایسی ہی ایک دلچسپ مثال دلیپ کمار کی ہے جو ایک صوفی سنت کے ایسے معتقد ہوئے کہ وہ دلیپ کمار سے اے آر رحمان بن گئے۔ ہندوستان میں تبدیلی مذہب کی جو دوسری وجہ ہے وہ عیسائی مشنریز کی سرگرمیاں ہیں۔ یہ مشنریز دیہی علاقوں میں بھی صحت و تعلیم کے مسائل پر کام کررہی ہیں۔ 20 برس قبل عیسائی پاسٹر گراہم اسٹینس کو ان کے دو بچوں کے ساتھ 1999 میں صرف اس لئے زندہ جلا دیا گیا تھا کیونکہ ان پر لوگوں کا مذہب تبدیل کروانے کا الزام تھا۔ اسی طرح 2008 میں کندھامل جیسے علاقوں میں عیسائی دشمن تشدد برپا کیا گیا۔ عیسائیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر مذہب تبدیل کروائے لیکن 2011 کی مردم شماری کے مطابق ان کی آبادی میں عیسائیوں کی آبادی صرف 2.3 فیصد تھی (ہندوستان میں پہلا چرچ سینٹ تھامس نے 52 اے ڈی میں قائم کیا تھا) ویسے بھی سیاسی طور پر بھی دوسرے مذاہب اختیار کرنے والے ہندوؤں کو ہندو ازم میں واپس لانے کے لئے مختلف اقدامات کئے جارہے ہیں مثال کے طور پر آگرہ میں جھوپڑ پٹیوں میں رہنے والے لوگوں سے بی پی ایل اور راشن کارڈ دینے کا وعدہ کیا گیا، انہیں ایک پوجا میں شرکت کرنے اور اپنے ہندو ہونے کا اعلان کرنے کا لالچ دیا گیا۔ اسی طرح قبائیلی علاقوں میں بھی مذہب واپسی پر خصوصی غسل کا اہتمام کیا جانا عام بات ہے۔