مذہبی اقلیتوں کی ابتر معاشی حالت سدھارنےتحفظات یا مثبت اقدامات…کیا چاہئے

   

رام پنیانی
ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی معاشی حالت انتہائی ابتر ہے اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ حکومتیں چاہتے ہوئے بھی اقلیتوں کی بہبود کیلئے اقدامات نہیں کرسکتی۔ اس ضمن میں ہم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی زیر قیادت یو پی اے حکومت کی مثال پیش کرسکتے ہیں ۔ اس حکومت کو مسلمانوں کی تعلیمی معاشی اور سیاسی شعبوں میں ترقی کیلئے کمیشنوں اور کمیٹیوں کی جانب سے مختلف تجاویز پیش کی گئیں اور مشورے دیئے گئے لیکن ان پر بمشکل ہی عمل کیا گیا ۔ بہرحال اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی معاشی حالت ان تمام لوگوں کیلئے بہت پریشان کن عنصر رہی ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ معاشرہ مساوات اور انصاف کیلئے جدوجہد کرے۔ اگر ساحل مالا بار میں 7 ویں صدی عیسوی سے عرب تاجروں کے ذریعہ اسلام کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد اور فروغ اسلام کو دیکھیں تو مذہب تبدیل کرنے والوں کی اکثریت ذات پات کی بنیاد پر امتیاز اور ظلم و جبر کا شکار تھی ۔ اس ضمن میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس دور میں ذات پات کی بنیاد پر اعلیٰ ذات والے کمزور طبقات پر بے انتہا ظلم کیا کرتے تھے، انہیں ان کے انسانی حقوق سے محروم کر کے رکھ دیا گیا تھا ۔ ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک عام سی بات تھی ۔ باالفاظ دیگر کمزور طبقات سے امتیازی رویہ اختیار کرنے کا ایک ناپسندیدہ رواج اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکا تھا ۔ کمزور و محروم طبقات معاشی طور پر بھی بہت پسماندہ تھے۔ مغل دور حکمرانی کے دوران مسلم بادشاہوں نے دہلی سے آگرہ تک حکمرانی اس دور میں معاشرہ کی جو ساخت تھی اس میں ہندو زمینداروں کی ایک بڑی تعداد چھائی ہوئی تھی چنانچہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کی حالت زار غریب ہندوؤں کی طرح ہی تھی ۔ 1857 کی بغاوت باغدر کے بعد انگریزوں نے اپنی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ سب سے زیادہ اگر کسی کو بنایا تو وہ مسلمان تھے کیونکہ انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والوں کی قیادت مغلیہ سلطنت کے آخری حکمراں بہادر شاہ ظفر نے کی، نتیجہ میں مسلمانوں کو انگریزوں کے مظالم کا نشانہ بننا پڑا ۔ انگریزوں نے مسلمانوں سے چن چن کر انتقام لیا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان میں انگریز اپنی بقاء کیلئے مسلمانوں کو ہی سب سے بڑا خطرہ تصور کیا کرتے تھے۔ آزادی کے بعد مسلمانوں کے خلاف تعصب و جانبداری کو اجاگر کیا گیا ۔ ان کے بارے میں جھوٹ و دروغ گوئی کا سہارا لے کر غلط باتیں پھیلائی گئیں اور مسلمان بتدریج فرقہ پرست طاقتوں کا نشانہ بن گئے ۔ وہ ایسا وقت تھا جب ہندوستان نے انگریزوں کی غلامی سے نئی نئی آزادی حاصل کی تھی اور مختلف مذاہب کے ماننے والے تعلیم اور روزگار کے ذریعہ آگے بڑھ رہے تھے اور خود کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کر رہے تھے ۔ اس عمل میں مسلمان دیگر ابنائے وطن سے پیچھے رہ گئے اور ان کے پیچھے رہ جانے کی ایک نہیں بلکہ کئی وجوہات ہیں جس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کرنے کیا گیا مسلسل پروپگنڈہ بھی شامل ہے، ساتھ ہی ان کی معاشی پسماندگی بھی مسلمانوں کی خراب حالت کی ذمہ دار رہی ، ہمارے دستور میں دلتوں اور قبائلیوں کی سماجی و معاشی پسماندگی کو تسلیم کیا گیا اور انہیں تعلیم اور روزگار خاص طور پر سرکاری ملازمتوں میں تحفظات فراہم کئے گئے جس کے نتیجہ میں یہ طبقات کسی حد تک ترقی کی راہ پرگامزن ہوئے جبکہ قومی سطح پر دیگر پسماندہ طبقات یا او بی سیز کو 27 فیصد تحفظات فراہم کئے گئے۔ بعض ریاستی حکومتوں نے اس سے پہلے ہی اپنے طور پر ا پنی ریاستوں میں دیگر پسماندہ طبقات کو تحفظات فراہم کرنا شروع کردیا تھا ۔ بحیثیت مجموعی ان او بی سی تحفظات کی مختلف سطحوں پر شدت سے مخالفت کی گئی ۔ ان تنظموں میں Youth For Equality بھی شامل ہے ۔ یہاں تک کہ دلتوں اور دیگر طبقات کو دیئے جانے والے تحفظات کی بڑ ے پیمانہ پر مخالفت کی گئی جس کی بدترین مثال 1980 میں پیش آئے مخالف دلت اور مخالف ذات پات فسادات اور 1985 کے وسط میں پیش آئے گجرات فسادات ہیں ، وہ فسادات دراصل دلتوں و دیگر پسماندہ طبقات کو تعلیم اور روزگار میں فراہم کئے گئے تحفظات کے خلاف پر تشدد ردعمل کے باعث رونما ہوئے تھے۔ اسی دوران دستور نے مذہب کی بنیاد پر دیئے جانے والے تحفظات کو تسلیم نہیں کیا ۔ اقلیتوں کو مسلسل معاشی پسماندگی کا شکار بنایا جاتا رہا ، بعض ریاستوں نے مسلمانوں کو OBC کوٹہ سے جوڑنے کی کوشش کی لیکن تحفظات کے ذ ریعہ مسلمانوں کو پسماندگی کے دلدل سے اٹھانے کی کسی بھی کوشش اور اقدام کی ہندو قوم پرست طاقتوں نے شدید مخالفت کی ۔ مسلمانوں کی خراب معاشی حالت/ معاشی پسماندگی نے ان لوگوں میں تشدد اور اقتصادی شعبہ میں محرومیوں سے عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ۔ مسلمان نوجوان روزگار حاصل کرنے سے قاصر رہے ، حد تو یہ ہے کہ انہیں بڑے سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت الگ تھلگ کردیا گیا ۔ ان کی بستیاں الگ کردی گئیں۔ جہاں تک مسلمانوں کی بستیاں الگ آباد کرنے کا سوال ہے ، وہ اصل میں فرقہ وارانہ تشدد کا نتیجہ ہیں۔ واضح رہے کہ جب کبھی مسلمانوں کی تعلیمی معاشی پسماندگی دور کرنے کیلئے تحفظات فراہم کرنے کی بات ہوتی تب ہندوتوا کی سیاست کرنے والوں نے اس کی شدت سے مخالفت کی اور ہمیشہ یہی رونا رویا کہ حکومتیں (خاص طور پر کانگریس کی زیر قیادت حکومتیں) مسلمانوں کی خوشامد کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ مسلمانوں کے تئیں خوشامدانہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔ ہندوتوا کی سیاست کرنے والی کی شدید مخالفت نے مختلف کمیٹیوں کی سفارشات پر عمل آوری سے متعلق ریاست کے ارادوں کو روک دیا۔ ان کی راہ میں حائل ہوگئے۔ اس سلسلہ میں ہم یہاں جسٹس راجندر سچر کمیٹی رپورٹ کا حوالہ دے سکتے ہیں۔ یہ رپورٹ 2006 میں پیش کی گئی ۔ اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اس بے بس کمیونٹی کی زندگیوں میں بہتری لانے کا عزم ظاہر کیا تھا ۔
درج فہرست طبقات و قبائل کے Componenet Plans کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کیلئے اختراعی منصوبے وضع کرنے ہوں گے کہ اقلیتیں خاص طور پر مسلم اقلیت ترقی کے ثمرات میں مساویانہ طور پر حصہ لینے کیلئے بااختیار ہوں ۔ ملک کے قدرتی وسائل پر ان کا پہلا دعویٰ ہونا چاہئے ۔ مرکزی حکومت اقلیتوں کو ان ثمرات سے مستفید کرواتے ہوئے ان کی ابتر حالت کو بہتر بناسکتی ہے ۔ ریاست نے گوپال سنگھ کمیٹی ، رنگناتھ مشرا کمیشن اور آخر میں سچر کمیٹی کے ذریعہ مسلمانوں کی ابتر معاشی حالات کو سمجھنے کی کوشش کی ، ان کمیٹیوں اور کمیشن کی رپورٹس میں واضح طور پر کہا گیا بلکہ قبول کیا گیا کہ گزشتہ کئی دہوں سے مسلمانوں کی حالت قابل رحم ہے ۔ ان کی حالت انتہائی ابتر ہوچکی ہے ۔ جیسے ہی ڈاکٹر منموہن سنگھ نے مسلمانوں کی حالت زار پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے ان کی زندگیوں میں بہتری لانے کی بات کی بی جے پی نے ان کے بیان کو پروپگنڈہ کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا کہ کانگریس کے انتخابی منشور میں باضابطہ یہ باتیں کہی گئیں ہیں ۔ مودی نے انتخابی مہم کے دوران خطاب میں کچھ یوں کہا ’’وہ (ہماری) ماؤں بہنوں کے زیور کی گنتی کر کے اسے ان کے جسموں سے اتارلیں گے اور ان زیورات کو اور دولت کو ان لوگوں کے حوالے کردیں گے جن کے بارے میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ قدرتی وسائل پر سب سے پہلے ان (مسلمانوں) کا حق ہے ۔ (وزیراعظم نریندر مودی نے اشتعال انگیز اور نفرت انگیز خطاب میں دراصل یہ کہا تھا کہ کانگریس آپ کے ماں بہنوں کے منگل سوتر آپ کی دولت دراندازوں میں اور زیادہ بچے پید کرنے والوں میں تقسیم کرے گی) ۔ اس طرح کے حالات میں یو ایس۔ انڈیا پالیسی انسٹی ٹیوٹ اور سنٹر فار ڈیولپمنٹ پالیسی اینڈ پریکٹس کی مسلمانوں سے متعلق جو رپورٹ آئی ہے اس کا کوئی بھی خیر مقدم کرتا ہے ، یہ رپورٹ بلال احمد ، محمد سنجر عالم اور ناظمہ پروین نے تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کے ذریعہ ایک نئی سوچ و فکر دی گئی ہے ۔ یہ رپورٹ مسلمانوں کے کوٹہ سے ایک نقطہ نظر کو دور کرتی ہے ۔ یہ تسلیم کرتی ہے کہ مسلم معاشرہ کی مختلف اقتصادی پرتیں ہیں۔ اگرچہ ان میں سے چند خوشحال ہیں جنہیں تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں تحفظات فراہم کرنے کے معاملہ میں غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ تاہم مسلمانوں کی اکثریت معاشی و تعلیمی لحاظ سے کافی پسماندہ ہیں، ان لوگوں نے اس مسئلہ کے حل کیلئے مذہبی بنیاد پر نہیں بلکہ ذات پات کی بنیاد پر تحفظات فراہم کرنے پر غور کرنے کا مشورہ دیا یعنی وہ ذات پات پر زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہوئے مذہب سے عیر جانبدارانہ طریقہ کار تجویز کرتے ہیں۔ یہاں ذات پات کے قبضہ کو دیکھنا چاہئے ۔ پہلے ہی سے بہت سے لوگوں اور تنظیموں کی جانب سے تحفظات کی حد میں اضافہ کی مہم چلائی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) اور دلت کوٹہ میں مسلمانوں کے مزید زمروں کو بھی جگہ دی جاسکتی ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں CSDS-LOKNITI ڈیٹا کا استعمال کیا گیا ہے ۔ رپورٹ کے مصنفین نے مسلم طبقات کے تاثرات پر بھی غور کیا ہے چونکہ مسلمانوں کے تحفظات بی جے پی اور اس کے لیڈروں کو بہت گراں گزرتے ہیں ، وہ کسی بھی حال ہی میں مسلمانوں کو تحفظات دینے کے حق میں نہیں (بی جے پی کے کئی بڑے اور قد آور لیڈروں نے جنوبی ہند کی ریاستوں آندھراپردیش اور تلنگانہ میں پر زور انداز میں کہا تھا کہ وہ ان ریاستوں میں اقتدار پر آتے ہیں تو مسلمانوں کو دیئے جارہے تحفظات ختم کردیں گے) بی جے پی اور اس کی قبیل کی جماعتیں و تنظیمیں مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرنے کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں ۔ رپورٹ میں مسلمانوں کو ذات پات کی بنیاد پر تحفظات دینے کی وکالت کی گئی اور کہا گیا کہ پسماندہ مسلمان، مسلمانوں میں سب سے زیادہ محروم ہیں اور وہ اپنی پسماندگی کے باعث دلتوں کے زمرہ میں آ تے ہیں ۔ عیسائیوں کو کئی برادریاں بھی اس زمرہ میں آ تی ہیں جنہیں باوقار معاش کیلئے ریاستی تعاون و اشتراک کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ رپورٹ میں ریاست کی بدلتی نوعیت پر بھی غور کیا گیا اور اسے بہبودی ریاست کہا گیا جو لفظ (استفادہ کنندگان) ان لوگوں کیلئے استعمال کرتی ہے جنہیں ریاست کی اسکیمات (سرکاری اسکیمات) سے فائدہ ہوا ۔