مذہبی جلسوں پر پتھراؤ بہانہ، مسلمان نشانہ

   

رام پنیانی
رام نومی (شری رام چندر جی کی یوم پیدائش کی تقریب) 2023 میں مختلف مقامات پر فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات دیکھے گئے۔ اس طرح کے زیادہ تر واقعات ہوڑہ (مغربی بنگال)، چھترپتی سمبھاجی نگر (اورنگ آباد)، ممبئی کے بعض مضافاتی علاقوں، دہلی اور بہار کے کئی مقامات پر پیش آئے۔ اگر آپ رام نومی کے دوران فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ پچھلے چند برسوں سے یہ باقاعدہ ایک سماجی کیفیت و رجحان بن گیا ہے اور گذرتے وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ رام نومی کے موقع پر پیش آئے تشدد کے واقعات کو میڈیا نے ایسے پیش کیا جیسے رام نومی کے جلوس پر سنگباری کی گئی اور اسی سنگباری کے نتیجہ میں تشدد کے واقعات پیش آئے جبکہ جلوسیوں کی جانب سے لگائے گئے جارحانہ نعروں، مسلح شرکاء جلوس، مساجد کے سامنے اشتعال انگیز حرکتوں کو خاص طور پر میڈیا نے اپنی رپورٹس میں نہیں بتایا جو بھی رپورٹس منظر عام پر آئیں ان میں مذکورہ حقائق غائب تھے۔ گزشتہ سال اسی قسم کے واقعات پیش آئے تھے جن میں سے ایک واقعہ کھرگونے میں پیش آیا اس واقعہ میں جلوس پر سنگباری کا بہانہ بناکر اقلیتی طبقہ کے 51 مکانات کو بی جے پی حکومت نے بلڈوزر کے ذریعہ نشانہ بنایا۔ ان مکانات کو زمین دوز کردیا گیا۔ اگر آپ غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ رام نومی کی نوعیت میں پچھلے چند برسوں کے دوران بھیانک تبدیلیاں آئی ہیں۔ رام نومی جلوسوں میں اب نوجوانوں کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں دیکھی جارہی ہیں۔ وہ اپنے ہاتھوں میں تلواریں لئے لہرا رہے ہیں۔ جاریہ سال تو ایک جلوس میں ایک نوجوان کو پستول لہراتے دیکھا گیا۔ ان جلوسوں میں پرجوش موسیقی اور مسلم دشمن نعروں کی گونج سنائی دیتی ہے جس میں مسلمانوں کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ ان کے خلاف مغلظات بکی جاتی ہیں۔ اس المناک کہانی کا ایک دلچسپ حصہ جلوسوں کے راستوں کا تعین ہے یہ لوگ عام طور پر مسلم اکثریتی علاقوں سے جلوس گذارنے کو یقینی بناتے ہیں چاہے اس کے لئے پولیس کی اجازت ہو یا نہ ہو، مساجد پر گلال پھینکنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ ہاں جلوسیوں کے لئے مساجد پر چڑھ جانا اور ان کی میناروں پر زعفرانی پرچم لہرانا لازمی ہوگیا ہے۔ کم از کم مساجد پر گلال پھینکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آپ کو مغربی بنگال میں رام نومی کے دوران پیش آئے فرقہ وارانہ تشدد کے بارے میں بتاتے ہیں۔ اس ریاست میں جہاں ممتابنرجی کی ٹی ایم سی حکومت ہے جلوسوں میں گڑبڑ پیدا کی گئی۔ جلوس میں شامل بدقماش عناصر نے ہنگامہ کھڑا کیا جبکہ ریاست میں بی جے پی، ممتابنرجی پر مسلمانوں کے تئیں نرم رویہ اختیار کرنے کا الزام عائد کررہی ہے۔ چیف منسٹر ممتابنرجی کہتی ہیں کہ مذہب کبھی بے چینی پیدا نہیں کرتا یا بے چینی پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتا بلکہ مذہب امن کی بات کرتا ہے۔ ریاست میں بی جے پی نے فسادات برپا کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبہ کے تحت رام نومی کے دوران تشدد برپا کیا گیا اور نے ایسا صرف مغربی بنگال میں ہی نہیں کیا بلکہ ملک کے تقریباً 100 مقامات پر ایسا کیا ہے۔
جہاں تک ہوڑہ واقعہ کا سوال ہے یہ واقعہ انتہائی بدبختانہ ہے۔ ہم نے بار بار یہی کہا ہیکہ جلوس کو اس روٹ سے گذرنے کی اجازت نہ دی جائے تاہم جلوس میں مجرمین بندوقوں، پٹرول بموں، بلڈوزروں اور دوسری مختلف چیزوں کے ساتھ داخل ہوئے اور اقلیتوں پر حملے کئے۔ یہ سب کچھ بی جے پی، ہندو مہاسبھا، بجرنگ دل وغیرہ وغیرہ نے کیا اور مختلف ناموں کے ساتھ شہرت رکھنے والی ان تنظیموں نے اقلیتوں پر راست یا بالواسطہ اور ارادتاً حملے کئے۔ ماضی میں انگریزوں کے دور میں بھی جلوسوں کے بہانہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پیش آیا کرتے تھے۔ مسلم فرقہ پرست گنپتی وسرجن، شیوجینتی کے جلوسوں، رام نومی جلوسوں، محرم وغیرہ کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے ہندو فرقہ پرستوں کے برابر استعمال کیا کرتے تھے۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ مابعد آزادی معاشرہ کے بڑے حصوں میں تعصب و جانبداری کا زہر پھیلنے لگا اور خاص طور پر پولیس اس قسم کے جلوسوں کے دوران اپنی آنکھیں بند کرلیتی ہے اور جب جلوسی ایک مخصوص علاقہ (اقلیتی آبادی کے حامل علاقہ) سے گذر نے کی ضد کرتے ہیں (اگرچہ انتظامیہ ان علاقوں سے جلوسیوں کو گذرنے کی اجازت نہیں دیتا) ایسے میں پولیس کا فرض بنتا ہے کہ وہ مسلم اکثریتی علاقوں سے جلوسوں کو گذرنے کی اجازت نہ دیں لیکن وہ ایسا نہیں کرتی بلکہ اپنی آنکھیں بند کرلیتی ہے اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ جلوسوں کے منتظمین اور شرکاء یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں ریاست کی جانب سے تحفظ حاصل ہے۔ ریاست ان کے تحفظ کے لئے کھڑی ہے۔ دوسری طرف میڈیا ہے جو تمام تر توجہ سنگباری یا پتھراؤ پر مرکوز کردیتا ہے اور اشتعال انگیز نعروں، ہتھیاروں کی کھلی نمائش پر پوری طرح خاموشی اختیار کرتا ہے۔ مابعد آزادی جلوسوں میں اشتعال انگیزی کے ذریعہ برپا کروائے گئے تشدد کے واقعات کی عدالتی تحقیقات ہوتی رہی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا ایڈوکیٹ چندراودے سنگھ نے ’’ٹیزنس اینڈ لائرس آشیٹو‘‘ کے لئے اپنی تعارفی تقریر میں واضح طور پر لکھا کہ جتنے بھی بڑے فسادات ہوئے وہ مذہبی جلوسوں کے بعد ہی ہوئے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں ان واقعات کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا گیا جو اپریل 2022 میں رام نومی اور ہنومان جینتی کے دوران تشدد کا باعث بنے۔ رپورٹ میں اس امر کی تصدیق کی گئی کہ جلوسوں میں مسلم عبادت گاہوں یا مسلم اکثریتی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کی چند بڑی مثالیں ہمیں ان جلوسوں کے ذریعہ بھڑکنے والے فرقہ وارانہ فسادات کے بارے میں سمجھنے میں مدد ملے گی۔ بھاگلپور فسادات میں جلوس کی روٹ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا جسٹس رام نندن پرساد، جسٹس رام چندرا پرساد سنہا اور جسٹس ایس شمس الحسن پر مشتمل ایک کمیشن آف انکوائری نے تحقیقات کے دوران یہ پایا کہ اگرچہ رام شیلا جلوس پر 1989 سے پہلے ہی سے تناؤ کی کیفیت بنتی رہی ہے اس کے باوجود انتظامیہ اور پولیس نے اسے نظرانداز کردیا اور اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ کمیشن نے بطور خاص اس بات کو نوٹ کیا کہ 1989 میں تاترا پور سے جلوس لے جانے کے لئے کوئی درخواست نہیں دی گئی۔ اور جلوس کے منتظمین کو جو اجازت نامہ جاری کیا گیا اس میں بھی تاتراپور کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ اسی طرح کمیشن آف انکوائری کوٹا 1989 نے بھی ایسے ہی نتیجہ اخذ کیا۔ جسٹس ایس این بھرادے نے حقائق کا کچھ یوں اظہار کیا۔ ’’میرے خیال میں وہ جلوسی ہی تھے جنہوں نے قابل اعتراض اور انتقال انگیز نعرے لگائے اور ان ہی نعروں کے نتیجہ میں مسلم کمیونٹی نے بھی اس کا جواب دیا۔ بھیونڈی، مالیگاؤں فسادات میں بھی جسٹس ماڈون نے اس حقیقت کا اظہار کیا کہ بھیونڈی فسادات یا گڑبڑ دراصل شیوجینتی جلوس میں شامل جلوسوں کے جان بوجھ کر کئے گئے غلط برتاو کا نتیجہ تھا۔ وہ جلوس 7 مئی 1970 کو نکالا گیا تھا تاکہ مسلمانوں کو مشتعل کیا جائے۔ اگر دیکھا جائے تو تہواروں، جلوسوں کے پیچھے دراصل فرقہ پرستوں کے مفادات ہوتے ہیں۔ ان جلوسوں کے نتیجہ میں ہی معاشرہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوا اور فرقہ پرست پارٹی کو اس کے ذریعہ استحکام ملا۔ Yale University ریسرچ کے جو نتائج سامنے آئے اس کے مطابق فسادات، نسلی تقسیم کا سبب بنتے ہیں جس سے نسلی، مذہبی جماعتوں کو فائدہ ہوا اور کانگریس کو اس کی قیمت چکانی پڑی۔ ہندو قوم پرست جماعتوں کے ووٹ شیر پر اس کا اثر پڑا مقالہ میں خاص طور پر نوٹ کیا گیا کہ ایک الیکشن سے ایک سال قبل فسادات کے نتیجہ میں بی جے پی؍ بی جے ایس کے ووٹ شہر میں 0.8 فیصد اضافہ ہوا ویسے بھی اب تو جلوسوں کے نام پر بلڈوزروں کا استعمال ہو رہا ہے جو ہمارے معاشرہ کے لئے باعث تشویش ہے۔