قربانی تسلیم ورضا ،صبر وشکر کا امتحان
جلسہ یاد ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے مفتیہ رضوانہ زرین ،مفتیہ ناظمہ عزیز کا خطاب
حیدرآباد 4 ۔ جون (راست) جامعۃ المؤمنات مغلپورہ میں جلسہ یاد ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام برائے خواتین سے خطاب کرتے ہوئے مفتیہ حافظہ رضوانہ زرین نے کہا کہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے اس بے مثال جذبہ ایثار ، اطاعت وفرمان برداری ،جرأت واستقامت ،تسلیم ورضا اورصبر وشکر پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے اسے اطاعت، عبادت اور قرب الٰہی کا ذریعہ قرار دیا اور قیامت تک کے لئے اسے جاری فرمادیا ،قربانی روح اور دل ، اطاعت ، عبودیت اور کامل بندگی کا بے مثال منظرہے ،آج حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے مقدس اعمال اور قدیم دستوروں کے مطابق حجاج کرام حج میں اپنے عمل کو ظاہر کرتے ہیں اسی ابتدائی دور کی طرح ان دنوں بغیر سلے کپڑے پہنتے ہیں ،بال نہیں منڈواتے نہ تراشتے ہیں، دنیا کے عیش وعشرت اور تکلف کی زندگی سے پرہیز کرتے ہیں نہ خوشبولگاتے ہیں نہ رنگین کپڑے پہنتے ہیں،اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کی پکار پر لبیک کہا تھا وہی برسوں پہلے کی ندا آج بھی حجاج کرام کے زبانوں پر ہوتی ہے۔محترمہ رضوانہ زرین نے مزید کہا کہ ماہ صیام کا اصل مقصد ومنشا محض بھوکا رہنا، فاقے کا ٹنا نہیں، نفس کی تطہیر ہے، اسی طرح عید قرباں کا بھی مطلب ومفہوم محض جانور کے گلے پر چھری پھیردینا نہیں اس کے ذریعہ بارگاہ ایزدی میں اطاعت وفرماں برداری ہے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اللہ تبارک وتعالیٰ نے کئی مرتبہ امتحان لیاہمیشہ امتحان میں ثابت قدم اطاعت خداوندی میں اپنی زندگی بسر کئے۔ مفتیہ ناظمہ عزیز نے ترغیب دی کہ اپنی قربانی میں غرباء کو بھی شامل رکھیں۔جلسہ کا آغازحافظہ وقاریہ رقیہ کلثوم کی قرأت، حافظہ رمیصاء افشین کی نعت شریف ہوا۔ نظامت کے فرائض مفتیہ تہمینہ تحسین انجام دئیے۔ دعا وسلام پر جلسہ کا اختتام عمل میںلایاگیا۔
حضرت پیر چشتی کی شخصیت شریعت، طریقت، سیاست میں قوم وملت کی رہمنائی بے مثال
علمی مذاکرے سے مولانا پیر نقشبندی اور مولانا پیر سہروردی کا خطاب
حیدرآباد ۔ 4 ۔ جون : ( راست ) : حضور محمدﷺ کے مقدس شہر مدینہ منورہ سے آل نبیﷺ اولا وعلی ؓحضرت سید محمد عرب مدنی ؒنے الحکم حضور سرور کائنات کے کفر کی تاریکیوں میں توحید کی شمع جلانے کے عزم کے ساتھ ہندوستان تشریف لائے۔ ان سے تقریبا 300 سال پہلے ہندوستان تشریف لائے اور ملک کے مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے حیدر آباد دکن کی روحانی سرزمین میں مستقل قیام کا فیصلہ کیا اور آپ ہی کے نسل پاک سے حضرت سید نا محمد افتخار علی شاہ وطن ؒطالبان حق میں معرفت اور تصوف کے علم باطنی سے بندگان الہی کو روشناس کر واتے رہے اور اس روحانی مشن کو آپ کے جانشین حضرت پیر چشتی سید ولی اللہ حسینی شاہ افتخاری ؒنے شریعت اور طریقت کے ساتھ دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے سیاست میں بھی قوم وملت کی رہنمائی فرمائی۔ حضرت پیر چشتی ؒنے تعلیمات قرآنی کو عام کرنے کیلئے مختلف قرآنی اجتماعات کا اہتمام کیا۔ جس میں مختلف مکاتب کر کے مسلمان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر جمع ہوتے اور انہیں قرآن پاک کے پیام کی تلقین کی جاتی۔ حضرت پیر چشتی ؒ سلاسل چشتیہ قادریہ نقشبندیہ اور رفاعیہ سے نسبت رکھتے تھے۔ حضرت پیر چشتی ؒکے 55ویں یوم وصال کے بعد بھی یہ مقدس روحانی مشن نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں جاری وساری ہے۔ ان جذبات و احساسات کے ساتھ مولانا پیر سید شبیر نقشبندی افتخاری وارث سرکار وطن چشتی جانشین حضرت پیر چشتی نے آج عرس شریف کے موقع پر منعقد و عالمی مذاکرہ حضرت پیرچشتی ؒ حیات اور کارنامے سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے خراج عقیدت پیش کیا۔ قبل ازیں چشتی چمن میں آج بعد نماز عصر خانقاہ و افتخار یہ میں ختم قرآن پاک درود شریف کی مجالس کا انعقاد رعمل میں آیا اور بعد نماز مغرب خانوادہ افتخاریہ کے مولانا پیر سید کاشف اللہ حسینی اختیار افتخاری گدی نشین خانقاہ افتخاریہ جانشین حضرت پیر حسین سنجری اور ڈاکٹر سید مرتضی نقشبندی افتخاری نبیرہ سرکار وطنؒ کے علاوہ حضرت سیدانی پاشاہ صاحبزادی حضرت پیر چشتی ؒکے سجادہ نشین مولانا اکبرا لدین ذاکر افتخاری نے پیر طریقت حضرت پیر چشتی کی مزار پرغلاف شریف اور گلہائے عقیدت پیش کر نے کی سعادت حاصل کی اور درگاہ حضرت وطن ؒمیں بصد ادب و احترام صلاۃ و سلام کے بعد فاتحہ خوانی کی گئی۔ حیدری چمن کینڈا سے موصولہ اطلاع کے بموجب مولانا پیر سید سہروردی حسین افتخاری جانشین حضرت وطن ؒکی زیر نگرانی عرس شریف حضرت پیر چشتی کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر مولانا پیر سہروردی نے حضرت پیر چشتی ؒ کی حیات کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالی انہوں نے پیر چشتی کی خدمات کو بھر پور خراج عقیدت پید کیا۔ جبکہ پیر زادہ ابرار افتخاری، پیر زادہ سید اسرار حسین افتخاری، پیر زادہ سید کرار حسین افتخاری نے عرس شریف حضرت پیر چشتی ؒکے انتظامات انجام دئے۔ کینڈا میں مقیم حیدر آبادیوں نے اس روحانی محفل میں شریف کی سعادت حاصل گی۔
حج، حضرت ابراہیم ؑ اور حضور اکرم ؐ کی تقلید و پیروی کا عظیم الشان نمونہ
جلسہ سیرت سیدنا حضرت ابراہیم ؑ سے حافظ محمد رشاد الدین ودیگر کا خطاب
حیدرآباد ۔ 4۔ جون : ( راست ) ۔ حضرت سیدنا ابراھیم ؑ اپنی ذات میں ایک پوری امت تھے۔آپ ؑ کی پوری زندگی دعوت الی اللہ کے مشن کاعملی نمونہ تھی۔ حضرت سیدنا ابراھیمؑ نے ساری انسانیت کو ایک خداکی طرف بلایا اور وحدانیت کی تعلیم دی۔قرآن مجید میں ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ وہ دین کی دعوت دینے والوں کے لیے بہترین نمونہ بن جاتی ہے۔دین کی دعوت کے لیے ابراہیم علیہ السلام کا بے پناہ جذبہ، ہمت، اخلاص، صبر، استقامت، دلائل کی قوت، حکیمانہ اسلوب، سوز ودرد، قربانی وجاں نثاری، غرض بے شمار پہلوؤں سے ابراہیم علیہ السلام کے نقش قدم ہر زمانے اور ہر علاقے کے داعیوں کی رہ نمائی کرتے ہیں۔حضرت سیدنا ابراھیم کو اللہ نے ساری انسانیت کا امام بنایا۔آج چار ہزار برس بعد بھی دنیا کی بڑی آبادی جسمیں مسلمانوں کے علاوہ عیسائی،یہودی اور اہل کتاب بھی شامل ہیں حضرت سیدنا ابراھیم کو اپنا قائد و پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار محترم حافظ محمد رشاد الدین ،معاون امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند تلنگانہ نے جماعت اسلامی ہند یا قوت پورہ و ریاست نگر کے زیراہتمام یکم جون 2025ء بروز اتوار کوبمقام سعید وِلا فنکشن ہال رین بازار، یا قوت پور، حیدرآباد پر منعقدہ جلسہ سیرت سیدنا حضرت ابراھیمؑ کے موقع اپنے خطاب بعنوان’’حج اور آیات بینات‘‘ میں کیا۔ محمد عماد الدین صاحب،سابق امیر مقامی رکن جماعت اسلامی ہند،یاقوت پورہ نے بعنوان’’دور حاضر میں اسوہ ابراہیمی ؑ کی اہمیت‘‘ پر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے زمانے میں موجود شرک کی ہر صورت کے خلاف دعوت کا محاذ کھولا۔ دورِ حاضر کے داعیوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے دور میں رائج شرک کی صورتوں کا جائزہ لیں، ان سب کے خلاف اپنی دعوتی مہم چھیڑ دیں۔’’آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا‘‘ اس عنوان پر محمد خالد عبد الرحمن صاحب ایڈوکیٹ (رکن جماعت اسلامی ہند، یاقوت پورہ) نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ توحید کی دعوت صرف بتوں کے خلاف نہیں تھی بلکہ نمرود کی جھوٹی خدائی اور آزر کی مذہبی پیشوائی کے خلاف بھی اعلان جنگ تھی۔دعوتِ دین کی ابراہیمی راہ کس قدر کٹھن تھی، موجودہ دور میں اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا ہے، اس دور کے مقابلے میں اب تو دعوت کی راہ بہت آسان اور اس کے لیے فضا بہت سازگار ہے ۔فاروق طاہر (امیر مقامی جماعت اسلامی ہند، یا قوت پورہ) نے افتتاحی کلماتادا کیے ۔ امیر مقامی جماعت اسلامی ہند، ریاست نگر محمد حسام الدین متین نے اختتامی کلمات میں کہا کہ جماعت اسلامی ہند کا مقصد اقامت دین ہے اور یہی ابراھیمیؑ مشن بھی ہے انہوں نے کہا کہ مسلمان ابراھیمی ؑ مشن کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیں اور اجتماعیت سے وابستہ ہوکر اقامت دین کی جدوجہد کا حصہ بنیں۔محمد ذکی الدین (معاون امیر مقامی جماعت اسلامی ہند،یاقوت پورہ) کی تلاوت و ترجمانی سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ برادر محمد حسن البنا (ممبر ایس آئی او،یا قوت پورہ) نے ترانہ پیش کیا۔عبد المجیب صہیب ، تنظیمی سکریٹری یاقوت پور ہ نے پروگرام کی نظامت کی۔ ناظم اجتماع میر مقصود علی ہاشمی صاحب نے جلسہ کے انتظامات کی نگرانی کی۔
جلسہ فیضان اولیائے و
فیضان سلطان العارفین
حیدرآباد ۔ 4 ۔ جون : ( راست ) : کل ہند مرکزی مجلس شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ کے زیر اہتمام جلسہ فیضان اولیائے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ برکاتیہ حضرت سیدنا سید خواجہ شمس الدین امیر کلاں ؒ ، حضرت پیر سید محمد بادشاہ نقشبندی قادریؒ جانشین محدث دکن ابوالحسنات مولانا پیر سید خلیل اللہ شاہ نقشبندی مجددی ؒ اور فیضان سلطان العارفین حضرت سید شاہ عبداللطیف قادری لاابالی ؒ زیر صدارت مولانا پیر غلام احمد قریشی مجددی 8 ذی الحجہ بعد نماز عصر مدرسہ برکات الحسنات مقرر ہے ۔ صدر جلسہ خصوصی خطاب کریں گے ۔۔
جامعۃ المؤمنات کو آج سے عید الاضحی کے تعطیلات
حیدرآباد 4 جون (راست) مفتی حافظ محمد مستان علی قادری ناظم اعلیٰ جامعۃ المؤمنات نے بتایا کہ جامعۃ المؤمنات اور جامعہ کے تمام ملحقہ اداروں کوعید الاضحی کے تعطیلات 5 تا 15/ جون بروزاتوار رہیں گے ۔ 16/ جون بروز پیرکو دوبارہ تعلیم کا آغاز ہوگا۔
اللہ پر توکل، مومن کا شیوہ اور نجات کا راستہ
اسباب کو اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں،مولانا ڈاکٹر سید احمد غوری نقشبندی کا خطاب
حیدرآباد۔4؍ جون(راست)انسان کی زندگی مختلف مراحل، اتار چڑھاؤ، خوشی و غم اور سازگار و ناسازگار حالات سے عبارت ہے۔ ایسی کیفیت میں بہت سے خطرات، وسوسے اور ناامیدیاں گھیر لیتی ہیں، لیکن جو شخص ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتا ہے وہی اصل میں کامیاب انسان ہے، کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو اللہ تعالی پر توکل کرتا ہے اللہ تعالی اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔ (سورۃ الطلاق،آیت نمبر:3)کٹھن لمحات اور مشکل اوقات میں جب دنیا کے تمام دروازے بند محسوس ہوں، سارے اسباب منقطع ہوجائیں تب اللہ تعالیٰ پر پختہ یقین اور کامل توکل انسان کو نئی راہوں کی طرف لے جاتا ہے۔ یہی توکل کا اصل مفہوم ہے کہ نامساعد حالات میں بھی بندہ اپنے رب پر بھروسہ رکھے۔ان خیالات کا اظہار مولانا ڈاکٹر مفتی حافظ سید احمد غوری نقشبندی نائب شیخ المعقولات جامعہ نظامیہ نے مرکز انوار السنہ میں منعقدہ تربیتی لکچر کے دوران کیا۔ سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے مولانا نے کہا کہ سورۂ انفال کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے شعار میں ایک نمایاں علامت یہ بیان فرمائی کہ وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔توکل کی دو قسمیںہیں:(1)اسباب کو اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالی پر بھروسہ کرنا اور (2)بغیر اسباب کے توکل اختیار کرنا۔ مولانا نے حدیث شریف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک صحابی ؓنے حضرت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا:یا رسول اللہ ﷺ میں اپنے اونٹ کو باندھ کر اللہ پر توکل کروں یا کھلا چھوڑ کر توکل کروں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:پہلے اونٹ کو باندھو، پھر توکل کرو۔(جامع ترمذی،حدیث نمبر : 2517) اس فرمان نبوی سے واضح ہوتا ہے کہ اسباب کو ترک کرنا توکل نہیں بلکہ اسباب کو اختیار کیا جائے اور بھروسہ اللہ تعالی پر رکھا جائے۔چونکہ دنیا دارالاسباب ہے، اس لئے اسباب کو اختیار کرنا ایمان و توکل کے منافی نہیں ۔