مرممہ مذہبی تبدیلی قانون کیخلاف درخواست پر یو پی سے جواب طلب

,

   

عرضی کو سپریم کورٹ میں دیگر زیرسماعت مقدمات کے ساتھ جوڑدیا گیا ، تمام خواتین کو مذہبی تبدیلی کا خطرہ نہیں

نئی دہلی، 16 جولائی (ایجنسیز):سپریم کورٹ نے آج اترپردیش حکومت سے 2024 میں ترمیم شدہ اترپردیش مذہبی تبدیلی قانون کی کچھ دفعات کے خلاف دائر درخواست پر جواب طلب کر لیا ہے۔ جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس سندیپ مہتا پر مشتمل بنچ نے ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا اور اس درخواست کو دیگر زیر سماعت مقدمات کے ساتھ جوڑ دیا جن میں اسی نوعیت کے مسائل اٹھائے گئے ہیں۔یہ درخواست لکھنؤکی ماہر تعلیم روپ ریکھا ورما اور دیگر نے دائر کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ “اترپردیش پروہیبیشن آف ان لا فل کنورڑن آف ریلیجن ایکٹ’’ کی ترمیم شدہ دفعات مبہم اور حد سے زیادہ وسیع ہیں، جو اظہار رائے کی آزادی اور مذہبی تبلیغ کے حق کو متاثر کرتی ہیں۔قانون مذہبی تبدیلی کو غلط بیانی، زور زبردستی، دھوکہ دہی، ناجائز اثر و رسوخ یا لالچ کے ذریعے کرانے پر پابندی اور اس کے لیے سزا مقرر کرتا ہے۔ اس میں قید اور جرمانے کی سزائیں بھی شامل ہیں، اور مذہب تبدیل کرنے والے فرد کو پہلے ضلعی مجسٹریٹ کو پیشگی اطلاع دینا لازم ہے۔درخواست گزاروں نے ایڈووکیٹ پورنیما کرشنا کے ذریعے دائر درخواست میں دعویٰ کیا کہ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 14 (قانون کی نظر میں برابری)، 19 (اظہار رائے کی آزادی)، 21 (زندگی اور شخصی آزادی کا حق)، اور 25 (مذہبی آزادی) کی خلاف ورزی ہے۔درخواست میں کہا گیا کہ قانون کی دفعات 2 اور 3 “مبہم اور حد سے زیادہ وسیع’’ ہیں اور ان میں واضح معیار کی کمی ہے، جس سے جرم کی تشخیص مشکل ہو جاتی ہے۔درخواست گزاروں کے مطابق:’’یہ ابہام اظہار رائے کی آزادی اور مذہبی تبلیغ کے حق میں رکاوٹ بنتا ہے، اور اس سے قانون کا من مانی اور امتیازی نفاذ ممکن ہو جاتا ہے۔’’انہوں نے کہا کہ فوجداری قوانین کو واضح اور مخصوص ہونا چاہیے تاکہ حکام کے اختیارات کی زیادتی روکی جا سکے اور بے گناہ شہریوں کے خلاف غلط مقدمات درج نہ ہوں۔درخواست میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ ترمیم شدہ قانون میں شکایت درج کرانے کے مجاز افراد کی فہرست تو بڑھا دی گئی مگر اس کے ساتھ کوئی مناسب قانونی تحفظ شامل نہیں کیا گیا۔’’یہ قانون ہر مذہبی تبدیلی کے پیچھے بدنیتی فرض کرتا ہے اور بالغ افراد کی ذاتی فیصلوں کو ریاستی منظوری کا محتاج بناتا ہے،’’ درخواست میں کہا گیا۔ علاوہ ازیں، سیکشن 5 کے حوالے سے درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ غلط طور پر یہ فرض کر لیتا ہے کہ تمام خواتین مذہبی تبدیلی کے خطرے سے دوچار ہیں، جس سے ان کی خودمختاری متاثر ہوتی ہے اور نقصان دہ دقیانوسی خیالات کو فروغ ملتا ہے۔ریاستی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اسی نوعیت کی دیگر درخواستیں چیف جسٹس کی سربراہی والی بنچ کے سامنے زیر سماعت ہیں، جبکہ درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ ان کی درخواست صرف 2024 میں کی گئی ترامیم کو چیلنج کرتی ہے۔قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے 2 مئی کو اس درخواست پر سماعت پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ سپریم کورٹ مختلف ریاستوں میں مذہبی تبدیلی سے متعلق قوانین کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی کئی درخواستوں پر غور کر رہی ہے۔