زراعت کے نقطہ نظر سے کسان کو کچھ نہیں ملا، لوک سبھا میں وقفہ سوالات
نئی دہلی: اپوزیشن نے مرکزی بجٹ 2025-26 کو زراعت، تعلیم، روزگار اور صحت کے حوالے سے کھوکھلا بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ وفاقی جذبے کے خلاف ہے اور ریاستوں کے تحفظات کو خاطر میں نہیں رکھا گیا ہے جبکہ حکمراں پارٹی نے مرکزی بجٹ کو اب تک کا بہترین قرار دیتے ہوئے کہا کہ غریب، خواتین، نوجوان اور کسانوں کو مرکز میں رکھ کر حکومت نے ملک میں غذائیت سے لیکر انفرادی طورپر اقتصادی بااختیار بنانے کے لئے موثر قدم اٹھائے ہیں۔لوک سبھا میں وقفہ سوالات ختم ہونے کے بعد پریزائیڈنگ افسر دلیپ سائکیا نے عام بجٹ پر بحث شروع کرنے کے لیے کانگریس کے ڈاکٹر دھرم ویر گاندھی کا نام لیا۔ اس پر کانگریس کے کے وینوگوپال نے اعتراض کیا کہ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن ایوان میں نہیں ہیں۔ اس لیے بحث شروع نہیں ہو سکتی۔ اس پر پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے کہا کہ وزیر مملکت برائے خزانہ پنکج چودھری موجود ہیں اور ایسا کوئی اصول نہیں ہے کہ اگر وزیر خزانہ موجود نہ ہوں تو بحث نہیں ہو سکتی۔ اس معاملے پر تنازعہ کے درمیان اسپیکر اوم برلا بھی ایوان میں پہنچ گئے ۔ اسی دوران وزیر خزانہ ایوان میں پہنچیں اور بحث شروع ہو گئی۔ ڈاکٹر گاندھی نے کہا کہ ہندوستان کوئی ایسی قوم نہیں ہے جس میں ریاستیں تقسیم ہوں بلکہ یہ ایک ایسی قوم ہے جس میں ریاستوں نے اپنے حقوق سے دستبردار ہو کر ایک دوسرے کو ایک قوم کے طور پر قبول کر لیا تھا۔ یہ بجٹ بھی یکطرفہ اور وفاقی نظام کے خلاف ہے کیونکہ اس میں ریاستوں کے تحفظات کو کوئی جگہ نہیں دی گئی اور اسے کمروں میں بیٹھ کر تیار کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ریاستوں میں مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) بڑھتی ہے لیکن بجٹ میں ریاستوں کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ہے ۔بجٹ کی دفعات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بجٹ زراعت کے نقطہ نظر سے کسانوں کو کچھ نہیں دے رہا ہے ۔ کم از کم امدادی قیمت کی قانونی ضمانت کی کوئی بات نہیں ہے ۔ حکومت زرعی آلات پر گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) میں کوئی راحت نہیں دینا چاہتی ہے ۔ ہر سال ہزاروں کسان مر جاتے ہیں۔ ان کے خدشات دور کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ زراعت پر مبنی صنعتوں کے لیے کچھ نہیں کہا گیا۔ اسی وجہ سے بے روزگار نوجوان کھیتی باڑی چھوڑ کر بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور وہاں سے بھی انہیں ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑکر بھگایا جاتا ہے ۔ یہ حکومت کی سراسر غفلت ہے ۔انہوں نے کہا کہ صنعتوں اور مینوفیکچرنگ یونٹس بالخصوص فارما انڈسٹری کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے ۔ اس شعبہ کو دس سال سے نظر انداز کیا جارہا ہے ۔ کچھ میگا کارپوریٹس کی خاطر ایم ایس ایم ای کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی نظام کو بہت زیادہ نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔