اقلیتی بجٹ میں کمی ، محض 4810 کروڑ روپئے مختص
حیدرآباد۔ حکومت ہندکے بجٹ سے مجموعی طور پر مسلمانوں کو کو ئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا بلکہ جس طرح دیگر ہندستانیوں پر بجٹ2021-22 میں بوجھ عائد کیا گیا ہے اس کا اثر ہندستانی مسلمانوں پر بھی دیکھا جائے گا۔ مرکزی حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے بجٹ میں اقلیتی امور کیلئے 4810 کروڑ 77لاکھ کی تخصیص کا فیصلہ کیاگیا ہے جو کہ سال گذشتہ کے بجٹ میں 805کروڑ 77لاکھ کااضافہ ہے لیکن اس بجٹ کے ذریعہ ہندستانی مسلمانوں کی ترقی کو یقینی بنایاجانا ممکن نہیں ہے جبکہ مجموعی بجٹ کے ذریعہ عام شہری پر جو بوجھ عائد ہوا ہے اس کا زیادہ اثر مسلمانوں پر ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ عام شہریوں میں بھی مسلمانوں کی معاشی پسماندگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ دیگر سے کافی زیادہ ہے اور جو بوجھ عائد ہوگا وہ اسے برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہوگی۔2020-21کے بجٹ میں اقلیتی امور کے لئے مرکزی حکومت کی جانب سے 5029 کروڑ کا بجٹ مختص کیا گیا تھا لیکن نظر ثانی شدہ بجٹ کے دوران اس میں تخفیف کرتے ہوئے 4005 کروڑ روپئے کردیا گیا تھااس اعتبار سے سال گذشتہ کے بجٹ میں 1024 کروڑکی کٹوتی کی گئی تھی ۔ ہندستان میں مسلمانوں کی معاشی پسماندگی کی مثال کئی ایک رپورٹس ہیں اور کئی رپورٹس میں اس بات کی نشاندہی کی جاچکی ہے کہ مسلمان نہ صرف معاشی طور پر پسماندہ ہیں بلکہ تعلیمی اعتبار سے بھی ان کی پسماندگی میں بھی کوئی بہتری ریکارڈ نہیں کی جا رہی ہے بلکہ وہ معاشی چیالنجس سے نمٹنے کیلئے مجبور ہوتے جا رہے ہیں اور معاشی چیالنجس کے دوران حکومت کی جانب سے فلاح و بہبود کے سلسلہ میں کسی منصوبہ کے بجائے ان پر دیگر شہریوں کے ساتھ بوجھ عائد کیا جا رہاہے جو ان کی معاشی پسماندگی کو مزید ابتر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ مرکزی حکومت کے بجٹ میں 1378 کروڑ روپئے پری میٹرک اسکالر شپس کے لئے مختص کئے گئے ہیں جبکہ 468 کروڑ پوسٹ میٹرک اسکالر شپس کیلئے مختص کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو جملہ 1846 کروڑ ہوتے ہیں اس اعتبار سے ملک بھر میں اقلیتوں کی فلاح وبہبود کے لئے 2964.77 کروڑ ہی مختص کئے گئے ہیں کیونکہ 1846 کروڑتعلیمی اسکالر شپس کیلئے مختص کئے گئے ہیں جبکہ حج سبسیڈی کے خاتمہ کے ساتھ مرکزی حکومت کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ جو رقم سبسیڈی پر خرچ کی جاتی تھی سبسیڈی کے خاتمہ کے بعد مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے لئے اسے مختص کیاجائے گا لیکن سبسیڈی کے خاتمہ کے بعد سے اب تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیاگیا اور نہ ہی سبسیڈی کی رقم کے سلسلہ میں بجٹ میں کوئی تذکرہ کیا جا رہاہے حالانکہ ہر سال عازمین حج کی روانگی اور واپسی سے مرکزی حکومت کوخاطر خواہ آمدنی ہوتی ہے جو کہ بیرونی زر مبادلہ کے علاوہ ہوئی سفر ‘ حج درخواست فارمس کی فروخت اور دیگر ذرائع سے حاصل ہوا کرتی ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کی پالیسی اختیار کرنے کا متعدد مرتبہ اعلان کیا گیاہے لیکن بجٹ 2021-22 کے دوران بھی مسلم طبقہ کے وکاس کا کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے جاریہ معاشی سال کے دوران بھی ملک کی دوسری بڑی اقلیت کو کوئی راست فائدہ حاصل نہیں ہوگا ۔