مرکزی بجٹ میں اقلیتیں پھر نظرانداز

   

ایس سی ایس ٹیز اور او بی سیز کیلئے 138700 کروڑ روپئے اور اقلیتی بہبود کیلئے صرف 5000 کروڑ

حیدرآباد ۔ یکم ؍ فبروری (سیاست نیوز) وزیراعظم نریندر مودی نے بجٹ اجلاس کے پیش نظر اپنے این ڈی اے حلیفوں کے ساتھ اجلاس منعقد کیا جس میں انہوں نے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں پھیلی ناراضگی پر بھی اظہارخیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان پر مسلمانوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا دوسروں کا۔ شاید وہ مسلمانوں کے بارے میں یہ کہنے سے بھی گریز کرتے اگر ایل جے پی سربراہ رام ولاس پاسوان انہیں یہ یاد نہیں دلاتے کہ ہندوستان سب کا ہے اور مسلمانوں کا بھی اس پر دیگر ابنائے وطن کی طرح حق ہے۔ مودی جی لفاظی بہت اچھی کرلیتے اور جس طرح آج کل سیاسی قائدین عوام کے جذبات سے اچھی طرح کھیل لیتے ہیں اسی طرح ہمارے وزیراعظم الفاظ سے بھی کھیلنے میں مہارت رکھتے۔ کاش وہ اقلیتوں کی بہبود، ان کی خوشحالی، ان سے انصاف، مساویانہ سلوک کو ترجیح دیتے۔ ہمارے وزیراعظم کے بارے میں ایسا اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اکثر عجیب و غریب بیانات جاری کرتے ہیں۔ بہرحال مرکزی بجٹ میں سنگھ پریوار کے ایجنڈہ اور بی جے پی کی روایات کے مطابق اقلیتوں کو بری طرح نظرانداز کردیا گیا۔ 2019ء کے بجٹ میں جو رقم اقلیتوں کیلئے مختص کی گئی تھی 2020-21ء میں صرف 300 کروڑ روپئے کا اضافہ کیا گیا۔ پچھلے سال کے بجٹ میں سے اس وزارت کی اسکیمات کیلئے 4700 کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے جس میں سے نومبر 2019ء کے آغاز تک صرف اور صرف 1291 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جملہ بجٹ کا صرف 27 فیصد حصہ خرچ کیا گیا۔ مرکزی وزارت اقلیتی بہبود کے تحت اقلیتی طلباء و طالبات کو تین زمروں کی اسکالر شپس دی جاتی ہیں۔ ڈسمبر 2017ء میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں ایوانوں میں پارلیمانی اسٹانڈنگ کمیٹی کی رپورٹ جو وزارت اقلیتی بہبود کے مصارف سے متعلق تھی پیش کی گئی جس میں مذکورہ انکشاف ہوئے۔ اس تعلق سے 27 ڈسمبر کو میڈیا میں ایسی رپورٹس منظرعام پر آئیں جس میں کہا گیا تھا کہ جماعت اول تا دہم طلباء و طالبات کیلئے پری میٹرک اسکالر شپس کی خاطر 1220.3 کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے جس میں 31 اکٹوبر تک 101.02 کروڑ روپئے جاری کئے گئے۔ اس کا مطلب صرف 8.36 فیصد رقم جاری کی گئی۔ ہاں پوسٹ میٹرک اسکالر شپ (گیارہویں اور بارہویں جماعت) کیلئے مختص 496.01 کروڑ روپئے میں سے 49.3 کروڑر وپئے یا 9.94 فیصد رقم کی اجرائی عمل میں آئی۔ دوسری طرف میرٹ کم مینس اسکالر شپس کے مختص بجٹ کا صرف 17.63 فیصد حصہ جاری کیا گیا۔ اس کے برعکس بجٹ 2020-21ء میں درج فہرست طبقات و قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات کیلئے جملہ 1,38700 کروڑ روپئے بجٹ مختص کیا گیا۔ ایس سیز اور او بی سیز کیلئے 85000 کروڑ روپئے اور درج فہرست قبائل کیلئے 53700 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں جبکہ 2011ء کی مردم شماری میں ایس سیز کی آبادی 16.6 فیصد، درج فہرست قبائل کی آبادی 8.6 فیصد، مسلمانوں کی آبادی 14.2 فیصد، عیسائیوں کی آبادی 2.3 فیصد اور سکھوں کی آبادی 1.7 فیصد بتائی گئی ہے۔ اسطرح مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کی آبادی جملہ آبادی کا 18.2 فیصد بنتا ہے۔ اس کے باوجود اس قدر بڑی آبادی کیلئے 2019ء کا بجٹ ہی برقرار رکھنا خطرناک رجحان ہے۔ آپ کو بتادیں کہ حکومت نے بزرگ شہریوں اور معذورین کیلئے 9500 کروڑ روپئے بجٹ مختص کیا ہے۔ صحت کے شعبہ کیلئے 69000 کروڑ روپئے مختص کئے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ سی اے اے جیسے قوانین کے ذریعہ ملک میں بے چینی کی کیفیت پیدا کرنے کا باعث بننے والی مودی حکومت کی وزیرفینانس نے ہندوستان کی تاریخ کی سب سے طویل بجٹ تقریر کی۔ بجٹ میں اقلیتوں کو نظرانداز کئے جانے پر یہی کہا جاسکتا ہیکہ جس طرح لفظ بجٹ فرانسیسی لفظ Bougette سے اخذ کیا گیا جس کے معنی لیدر کا بریف کیس ہوتا ہے شاید اس بریف کیس میں اقلیتوں کی بہبود کیلئے رقم رکھنے زیادہ جگہ نہیں تھی۔