غضنفر علی خان
وہ حکومتیں جو اپنے ہی ملک کے سلگتے ہوئے مسائل کی ترجیحات کا خیال نہ رکھیں وہ اقتدار سے بہت جلد محروم ہوجاتی ہیں۔ یہی حال مرکز کی بی جے پی حکومت کا ہے ایسے اَن گنت و سینکڑوں مسائل ہیں جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ملک بھر میں پچھلے سال سے ہجومی تشدد میں ہلاکتوں کی وارداتیں دھڑلے سے ہورہی ہیں۔ ہجومی تشدد کے لئے کوئی مخصوص قانون نہیں ہے۔ ابھی اسی ہفتہ کی بات ہے کہ مہاراشٹرا کے ایک رکن اسمبلی وارث پٹھان نے معقول مطالبہ کیاکہ ہجومی تشدد کو قتل کی واردات قرار دیتے ہوئے کوئی انسدادی قانون بنایا جانا چاہئے، اُن بے چاروں کو اس بات کا شاید صحیح اندازہ نہیں ہے کہ اس ملک میں وہ بی جے پی حکمران ہیں جو مسلمانوں کو ہندوستانی باشندہ تک نہیں سمجھتی۔ بھلا ایسی حکومت سے ہجومی قتل کے خلاف حکومت کیسے کوئی قانون بناسکتی ہے جس کے وزیراعظم مودی نے گجرات کے فسادات کے بارے میں کہا تھا کہ اُنھیں گجرات کے مسلمانوں کی ہلاکتوں کے بارے میں اتنا ہی افسوس کہ کہ جتنا موٹر کار کے نیچے کسی کتے کے بچہ کے ہلاک ہونے سے ہوتا ہے۔ پھر بھی قابل مذمت بات ہے کہ وہ اُس ہندوستان کے مسلمانوں کو کتے کے بچہ سے تعبیر کرتے ہیں جن مسلمانوں نے بھارت ماتا کے پریشان گیسوؤں کو سنوارا تھا جنھوں نے اس ملک کی سرحدات کی حفاظت کے لئے اپنی اولاد کو نگران مقرر کیا تھا، جن مسلمان حکمرانوں نے ملک میں بھائی چارہ کی ایسی دلفریب مثالیں قائم کی تھیں جن پر آج بھی یہ ملک فخر کرسکتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے دور حکومت میں کئی فن تعمیر کے اعلیٰ ترین نمونے ہیں جن میں لال قلعہ، تاج محل، چارمینار، گنبدان قطب شاہی، مکہ مسجد اور ملک بھر میں اَن گنت تعمیراتی نمونے اور نشیاں چھوڑ گئے ہیں۔ آج بھی بڑے اعزاز و فخر کے ساتھ مغلوں کے تعمیر کردہ لال قلعہ سے ہی یوم آزادی کی تقاریب منائی جاتی ہیں، اسی لال قلعہ پر یوم آزادی کے موقع پر پرچم لہرایا جاتا ہے۔ آگرہ کے تاج محل کو دیکھنے کے لئے ہر دن سینکڑوں سیاح آتے ہیں جن میں بیرونی سیاح کی قابل لحاظ تعداد ہوا کرتی ہے۔ لیکن حکمران پارٹی میں ایسے لیڈرس بھی شامل ہیں جو دنیا کے عجائبات میں شامل اس محبت کی نشانی کو مسمار کرنا چاہتے ہیں، کہاں تک گنایا جائے۔ مسلم حکمرانوں کو لٹیروں کے نام سے یاد کرنے والوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔
اب تو عنان حکومت ان ہی افراد کے ہاتھوں میںہے۔ وہی حکمران ہیں جنھیں پارلیمنٹ میں بھی غالب اکثریت حاصل ہے۔ وہی قاتل پارٹی کے ارکان، لیڈرس اور وزیراعظم ہر بار کسی بھی مخالف مسلم دشمن پالیسی کے علمبردار بن جاتے ہیں، اس وقت قطعی اکثریت کے ساتھ بی جے پی اس قسم کی قانون سازی سے پیچھے نہیں ہٹے گی جو ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے جان لیوا ثابت ہوگی۔ اس صورتحال میں جو نیا مسئلہ پیداہوا ہے جو کسی اور میں بھی نہیں تھا جو ان مسلمانوں کو کسی نہ کسی بہانے ایک پُرتشدد ہجوم قتل کردیتا ہے۔ ایسے کئی واقعات ہوئے اور ہوتے جارہے ہیں جن میں نوجوان مسلمان کو گاؤ رکھشکوں یا ہندو نیشنلزم کے نام نہاد علمبردار قتل کردیتے ہیں اور مودی حکومت اس قسم کے قتل عبث کو بقول وزیراعظم ’’معمولی واردات‘‘ سمجھ کر نظرانداز کردیتی ہے۔ پچھلے چھ دن کے اندر ہجومی تشدد میں جھارکھنڈ اور نوئیڈا کے دو مسلم نوجوانوں کو جنونیوں نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا اس لئے کہ اس سے پہلے ہجومی تشدد میں اس طرح سے ہجوم کے ہاتھوں مارے جانے والے کسی بھی گروپ کو کوئی سزا نہیں دی گئی تھی۔ آج بھی دادری کے محمد اخلاق یا ہریانہ کے جنید، پہلو خان کے علاوہ اور معصوم مسلم نوجوانوں کا قتل ہوا لیکن اُن کے قاتل آج بھی کھلے عام گھوم پھر رہے ہیں۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کسی بھی ریاست کی پولیس نے ان ظالم قاتلوں کو کوئی سزا نہیں دی۔ اس سے ہجومی تشدد کے واقعات میں بلا روک ٹوک اضافہ ہوتے جارہا ہے۔ تازہ ترین واقعہ نویڈا کا ہے جس میں ایک مسلم نوجوان کو جس پر چوری کا الزام تھا جو پہلے بھی اسی الزام کے تحت پکڑا بھی گیا تھا، ہجومی تشدد میں مارا گیا۔ تبریز انصاری بھی ہجومی تشدد کی ضربات سے جانبر نہ ہوسکا۔ غرض یہ کہ جمہوری ہندوستان میں مسلمان کا قتل کوئی جرم نہ رہا، ایسے تشدد کے خلاف کوئی قانون آج تک نہیں بنا اس لئے کہ اس نوعیت کے واقعات ماضی میں کسی اور حکومت میں نہیں ہوا کرتے تھے۔ یہ تو ہندو نیشنلزم کی ذہنیت سازی کا نتیجہ ہے جس کو سنگھ پریوار نے پروان چڑھایا ہے۔ قطعی اکثریت کی مودی حکومت کے لئے اس مسئلہ پر قانون سازی کوئی دشوار کام نہیں ہے لیکن کسی بھی نئی قانون سازی کے لئے حکومت کے استقلال اور انصاف پسندی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی چیزوں کی کمی کی وجہ سے مودی حکومت ایسی کسی بھی قانون سازی سے گریز کرے گی۔ مرکزی حکومت قتل مسلمان کو کبھی بھی اتنا بڑا جرم نہیں سمجھے گی کہ اس کا ارتکاب کرنے والا کسی سخت سزا کا مستحق ہو۔ غلط ترجیحات کی اولین مثال تو یہ ہے کہ حکومت کوئی قانون سازی ہرگز نہیں کرے گی کیوں کہ ایسی قانون سازی خود بی جے پی کے سیاسی مفادات میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ یہ بھی قابل غور بات ہے کہ کیا ہمارے ملک کے قانون میں کوئی سزا جرم کے ارتکاب اور ثابت ہونے کے بعد اس جرم کی مناسبت سے دی جاتی ہے۔ کیا قانون تعزیرات ہند میں چوری اور سرقہ کے جرم میں خاطی پائے جانے والوں کو سزائے موت دی جائے۔ کسی قانون یا مذہبی قانون میں بشمول ہندو ازم ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ چور کو ختم کردیا جائے اور یہ موت کسی ہجوم کے ہاتھوں ہو اس کا بھی کسی قانون میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ قانون کا بنیادی مقصد انصاف رسانی کا ہوا کرتا ہے۔ ہندوستانی قانون میں کوئی مجرم اپنے سے منسوب کردہ جرم کی سزا پاتا ہے اس سے زیادہ یا اس سے کم نہیں۔ چوری کا جرم بہرحال جرم ہوا کرتا ہے حالانکہ ان دو مثالوں میں ابھی تک یہ ثابت نہ ہوسکا کہ نویڈا یا جھارکھنڈ کے نوجوان مسلمانوں نے کوئی چوری کی تھی اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا عدالت کے علاوہ کوئی ہجوم اپنے مذہبی جنون میں کسی کو بھی قتل کردے، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ آج ہندوستان کے ہجوم میں جو مخصوص ذہنیت کا حامل ہوا کرتا ہے یہ سمجھنے لگا ہے کہ وہ اقدام مثلاً قتل کوئی مخصوص گروہ کرے ہجوم نہیں ہوتا۔ عوام یا ہجوم کسی کے بارے میں خود کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ اس کے لئے اگر حکومت انصاف کرسکتی ہے تو عدالت کے ذریعہ ہی یہ کام ہوسکتا ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ مٹھی بھر انتہا پسند اور ہندو راشٹرا کے حامی خود کو قانون سازی اور خود ہی کو عدلیہ سمجھنے لگے ہیں۔ کسی عام شہری کو ایسا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی۔ آج ہمارے ملک میں ایسا گروپ جنم لے رہا ہے جو خود کو ہر چیز کا مالک سمجھتا ہے۔ ہر چیز میں جان لینے کا حق بھی شامل ہے۔ جب قانون کو وہ بھی جس کا تعلق ہلاکتوں سے ہو اس طرح کھلونا بن جائے اور کچھ لوگ قانون کو اپنا ماتحت بنالیں تو صرف آسمانی طاقت ہی اُنھیں ہدایت کی روشنی دے سکتی ہے۔ جس حکومت میں مخصوص لوگوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی کھلی اجازت مل جائے تو وہ سرزمین پر عدل گستری، انصاف پسندی کا کوئی غلبہ نہیں ہوسکتا۔ آج ہندوستان اسی صورت حال سے گزر رہا ہے جس میں ایک قانون شکن گروپ خود کو پوری طرح سے مختار بناچکا ہے۔ ترجیحات کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہندوستان میں طلاق ثلاثہ کے سلسلہ میں قانون سازی پارلیمنٹ میں اس پر بحث سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ ہجومی تشدد کی قانون سازی ہو۔