مرکز کے نئے آئی ٹی قواعد نجی زندگی میں مداخلت کا سبب

   

عوام کو ہراسانی کا اندیشہ، ایس آئی او قومی سکریٹری کا بیان
حیدرآباد۔ اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے نیشنل سکریٹری کے نہال نے مرکز کی جانب سے نئے آئی ٹی قواعد کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے آئی ٹی قواعد نجی معاملات کی پاسداری اور اظہار رائے کی آزادی کیلئے خطرہ ہیں۔ حال ہیے میں سوشیل میڈیا ، ڈیجیٹل خبروں اور او ٹی ٹی مواد کیلئے وضع کئے گئے انفارمیشن ٹکنالوجی ترمیمی ایکٹ 2021 نے کئی شبہات پیدا کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نئے قواعد کے تحت سوشیل میڈیا پلیٹ فارم کو 180 دنوں تک افراد کا ڈیٹا محفوظ رکھنا ہوگا جو کہ پہلے کی طئے شدہ مدت سے دگنا ہے۔ اس کا استعمال تحقیقاتی مقاصد کیلئے ہوگا۔ نئے قانون سے اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ صارف کے اکاؤنٹ حذف کرنے کے بعد بھی ڈیٹا کو محفوظ کرنا ہوگا۔ نئے ضوابط حکومت اور عدالتوں کو اختیار دیتے ہیں کہ وہ سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس کو یہ بتانے کیلئے مجبور کریں کہ مواد کس نے تخلیق کیا تھا۔ ملک میں ڈیٹا پروٹیکشن قانون اور عوام کی نگرانی سے متعلق اصول و ضوابط کی عدم موجودگی میں ریاستی مشنری اس قانون کو لوگوں کے نجی معاملات میں دخل اندازی اور ہراسانی کیلئے استعمال کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیامات کس نے اور کہاں سے بھیجے گئے اس پر حکومت کا کنٹرول ہوگا۔ نیا قانون ایسے وقت میں تیار کیا گیا جب نگرانی اور رازداری سے متعلق اس کے موقف پر متعدد قانونی چارہ جوئی حکومت کو چیلنج کررہی ہے۔ ڈیجیٹل خبروں اور او ٹی ٹی کے مواد اور اس طرح کے دیگر پلیٹ فارمس پر حکومت کے بڑھتے کنٹرول پر ماہرین کے درمیان وسیع مشاورت کی ضرورت ہے۔ ایس آئی او اس نئے قانون کی مخالفت کرتی ہے۔ یہ قانون وسیع پیمانے پر ریاستی نگرانی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مذکورہ اصولوں پر ازسر نو غور کرے۔