مسئلہ کشمیر پر مودی کے اقدامات، بیرونی ممالک میں ملک کی ساکھ متاثر

   

Ferty9 Clinic

اقلیت پر جبر و استبداد ، ہندوستانی میڈیا میں ستائش لیکن باہر سربیا میں انتقامی قوم پرستی پر مبنی میلوسووچ کے مظالم سے تقابل
نیویارک /نئی دہلی۔30 اگست (سیاست ڈاٹ کام) کشمیر میں ہر گزرتے ہفتہ کے ساتھ حکومت کی کارروائیوں میں شدت پیدا ہورہی ہے۔ اس علاقہ میں گزشتہ تین ہفتوں سے جاری ٹیلی فون لانئس اور انٹرنیٹ خدمات کی مسدودی، سیاسی قائدین کی حراست اور کرفیو کے نفاذ پر اتفاق کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت اب تاجرین، صنعتکار، طلبہ اور انسانی حقوق کارکنوں کے بشمول دیگر ہزاروں افراد کو گرفتار کررہی ہے۔ ایک نسل و مذہبی اقلیت پر کشمیر میں ہونے والے جبرو استبداد کو ہندوستان بھر میں زبردست تائید، داد و تحسین حاصل ہورہی ہے۔ اس قسم کی انتقامی قوم پرستی پر جشن کی یادیں تازہ کرنے کے لیے کسی کو چند دہائیوں قبل سلوبودان میلو سووچ کے زیر اقتدار سربیا کے واقعات کو دہرانا ہوگا۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ ’’ہندوستانی صحافت اور ٹیلی ویژن چینلس اس قسم کے واقعات کا جشن منانے کے لیے نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے چھلانگیں لگارہے ہیں۔ ایسے بھی کئی ہندوستانی صحافی ہیں جو حالیہ اوقعات پر کشمیریوں کے غم و غصہ کی خبر رسانی کرنے والے نیویارک ٹائمز، بی بی سی جیسے کئی مغربی میڈیا اداروں کو سوشیل میڈیا پر تنقیدی حملوں کا نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔ کشمیر سے متعلق اقدامات اور مابعد کے واقعات پر ہندوستانی میڈیا کی تقریباً متفقہ تائید نے مودی حکومت کو اور بھی نڈر اور بے خوف بنادیا ہے۔ مودی حکومت نے گزشتہ ہفتہ بشمول راہول گاندھی اپوزیشن قائدین کے ایک وفد کو کشمیر کا دورہ کرنے سے روک دیا تھا۔

ان تمام واقعات کے باوجود مودی کو اپنی کارروائیوں میں غیر معمولی طور پر مکمل کامیابی مل رہی ہے۔ مودی اور ان کے حامیوں کو اس حقیقت پر بھی اضافی حوصلہ افزائی حاصل ہورہی ہے کہ اکثر بیرونی حکومتیں خود انہیں درپیش داخلی چیلنجوں کے سبب کشمیر میں رونما ہونے والے واقعات پر توجہ مرکوز کرنے سے قاصر ہیں۔ مزید برآں ہندوستان کو سفارتی سطح پر عالمی برادری میں سب سے الگ تھلگ کرنے کے لیے پاکستان کی انتھک مہم بھی ناکام ہوگئی ہے۔ اس طرح کشمیر کی صورتحال روز افزوں بد سے بدتر ہورہی ہے۔ ہندوستانی میڈیا اگرچہ مودی حکومت کی بھرپور تائید کررہا ہے لیکن بین الاقوامی میڈیا بیک آواز ہوکر ہندوستانی حکومت کے اس دعوی کی مذمت کررہا ہے۔ مودی حکومت اور ہندوستانی میڈیا کا دعوی ہے کہ کشمیر کی صورتحال معمول کے مطابق ہے۔ حالانکہ اکثر اخبارات میں صفحہ اول کی تصاویر میں کشمیر کی ویران و سنسان سرکوں پر اکثر بھاری مسلح فوجی سپاہیوں کو گشت کرتا دکھایا جاتا ہے جو اس حقیقت کی منہ بولتی تصویر ہے کہ وہاں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے اور یہ علاقہ عملاً فوج کے قبضہ میں ہے۔ مودی کا یہ دعوی کہ وہ کشمیر میں معاشی ترقی کو فروغ دے رہے ہیں، یا تو عملی طور پر نظر ہی نہیں آتا یا پھر صاف طور پر ایک دھوکہ معلوم ہوتا ہے کیوں کہ اکثر قلمکار، ماہرین تعلیم اور جرنلسٹس جن میں بہت سے کشمیری بھی ہیں، عالمی ناظرین کو اکثر اپنے ماضی تاریخ اور موجودہ تقدیر سے واقف کرواتے رہتے ہیں۔ ان ناقدین اور مذمت کاروں کو غیر معتبر غیر مصدقہ اور بے اثر قرار دیتے ہوئے مسترد کردینا اگرچہ آسان تو ہوسکتا ہے لیکن وہ کسی اہم وقت پر طاقت کے ساتھ ابھر سکتے ہیں۔ جب ہندوستانی معیشت اور سیاست کے کئی مبصرین یہ سوال اٹھائیں گے کہ مودی آیا کس قسم کے لیڈر ہیں۔ بیرونی ممالک میں وزیراعظم مودی کی معاشی ترقی یا پھر پاکستان میں دہشت گرد کیمپوں کو تباہ کرنے کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے البتہ ان (مودی) کی نظروں کے سامنے ہجومی تشدد میں مسلمانوں کو مارمار کر ہلاک کرنے کے واقعات پر بین الاقوامی میڈیا کی توجہ مرکوز ہے اور وہ مودی کی ہندوقوم پرست تنظیم کا 1920ء کی یوروپی فاشسٹ تحریکات سے تقابل کرتے ہیں۔ مودی جو 2002کے فسادات میں گجرات کے چیف منسٹر تھے مسلمانوں کے خلاف منظم پیمانے پر قتل و غارت گری کے واقعات میں مشتبہ تھے وہ اپنے ہاتھوں کے داغ دھوتے ہوئے 2014ء میں دہلی کے تخت پر براجمان ہوئے اور اب خود انہوں نے ہی اپنی ساکھ کو ایک نیا نقصان پہنچا لیا ہے۔ مودی اگرچہ مغربی ممالک میں کئی قائدین کو یہ باور کروانے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں کہ وہ ہندو اکثریت پرستی کو ہوا دینے کے بجائے ہندوستانی معیشت کے فروغ اور ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کررہے ہیں۔ 2016ء میں نوٹ بندی کے سبب معیشت کے تجدید کار کی حیثیت سے مودی کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہونچا تو تھا لیکن مابعد کشمیر ان کی ساکھ کو جو دھکہ پہنچا ہے اس سے ساکھ کو بہتر بنانا اور بھی زیادہ دشوار ہوگیا ہے۔ اس دوران معیشت میں سست روی کی خبروں کے درمیان کئی بیرونی سرمایہ کار اب ہندوستان سے اپنے فنڈس واپس نکال رہے ہیں۔ کشمیر کے اقدام سے مودی نے خود کو نوٹ بندی کے اقدام سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔