مساجد ، مدارس ، اداروں کے اور شخصی دستاویزات کو ترتیب میں رکھنا ضروری

   

ایل بی نگرمیں 160 مساجد کے ذمہ داروں کا شعور بیداری اجلاس
ڈاکومنٹیشن میں مسلمان غفلت کا شکار ، جناب عامر علی خاں ایم ایل سی کا خطاب
حیدرآباد ۔ 11 ۔ اگست : ( سیاست نیوز) : ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کو مایوس ہونے کی بجائے اپنی مساجد ، اپنے مدارس ، اپنے تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ اپنے اور اپنے ارکان خاندان کے صداقت نامہ پیدائش ، تعلیمی صداقت ناموں اور دوسری اہم دستاویزات کو ترتیب میں رکھنا چاہئے ۔ مثال کے طور پر آدھار کارڈ ، بنک اکاونٹس ، لائسنس ، پیان کارڈس ، ووٹر آئی ڈی کارڈس ، پاسپورٹس جیسی دستاویزات کو تمام نقائص سے پاک رکھنا اور باضابطہ اس کی فائل بناکر تیار رکھنا ہوگا ۔ ان دستاویزات خاص کر جائیدادوں کی دستاویزات کو ڈیجیٹل فارمیٹ میں بھی محفوظ رکھا جاسکتا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار جناب عامر علی خاں ایم ایل سی نے مسجد فردوس چنتل کنٹہ ایل بی نگر میں منعقدہ مساجد کے ذمہ داروں کے ایک اہم اجلاس سے خطاب میں کیا ۔ جس کا مقصد مساجد کمیٹیوں اور مصلیوں میں اس بات کا شعور بیدار کروارہے ہیں کہ کس طرح مساجد و مدارس اور مسلم اداروں کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے اور کیسے خود اپنے اور اپنے ارکان خاندان دوست احباب کو اپنی ضروری دستاویزات کو تمام نقائص سے پاک بنایا جاسکتا ہے ۔ واضح رہے کہ یہ تحریک تلنگانہ اسٹیٹ مساجد کوآرڈینیشن کمیٹی سے تعلق رکھنے والے چند ہمدرد نوجوانان ملت شروع کی ہے ۔ ان میں سید ظہیر الدین اسلم ، محمد سلیم ، محمد غوث ، نصیر الدین اور حاجی بھائی شامل ہیں ۔ ان نوجوانوں کا کہنا ہے کہ اگر اس نیک کام میں وقف بورڈ اور صدر نشین وقف بورڈ سید عظمت اللہ حسینی بھی ان سے تعاون اور رہنمائی کرتے ہیں تو مساجد اور مدارس کے موقف کو قانونی طور پر مضبوط و مستحکم بنانے میں مدد ملے گی ۔ اس شعور بیداری جلسہ میں 160 مساجد کے 500 سے زائد ذمہ داروں نے شرکت کی انہیں ماہرین قانون نے یہ بتایا کہ مساجد اور مدارس کی دستاویزات کو کیسے Maintain کیا جائے ۔ اس جلسہ کی صدارت جناب عامر علی خاں ایم ایل سی نے کی جب کہ جناب محمد عزیز سابق ایم آر او ، جناب مقبول احمد سابق میونسپل کمشنر ، جناب عبدالوحید سب رجسٹرار ، جناب نثار احمد ایڈوکیٹ ، جناب سید احمد الکٹریسٹی ڈپارٹمنٹ نے زرین مشوروں سے نوازا اور مساجد و مدارس کمیٹیوں کے ذمہ داروں کی قانونی ذمہ داریوں اور خاص طور پر وقف ترمیمی ایکٹ سے پہلے اور بعد کے حالات پر روشنی ڈالی ۔ جناب عامر علی خاں نے اپنا سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے پر زور انداز میں کہا کہ تعلیم کے بغیر ہم اپنی مساجد و مدارس بلکہ خود اپنا بھی تحفظ نہیں کرسکتے ۔ آج تعلیم کے ذریعہ حالات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور اہم امور پر رہنمائی کے لیے ہمارے علماء موجود ہیں ۔ جناب عامر علی خاں ایم ایل سی نے یہ بھی کہا کہ دنیا میں تعلیم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا جب کہ معاشرہ میں اچھے اخلاق کی بھی ضرورت ہے ۔ اس شعور بیداری اجلاس میں ایل بی نگر ، حیات نگر ، عبداللہ پور میٹ ، چوٹ اوپل ، ابراہیم پٹنم ، بھونگیر ، نادر گل اور بڈنگ پیٹ کی مساجد کے ذمہ داروں نے شرکت کی ۔ ایم ایل سی عامر علی خاں صاحب نے اپنے فکر انگیز خطاب میں کہا کہ وہ ملت کی خدمت کے لیے سیاسی شعبہ میں داخل ہوئے انہوں نے بھی قرآن مجید و احادیث مبارکہ پڑھی ہیں اور مطالعہ کرتے رہتے ہیں لیکن علماء کی برابری نہیں کرسکتے ۔ ہم جن حالات سے گذررہے ہیں ہمیں یہ سوچ کر آگے بڑھنا ہے کہ ہمیں منزل تک پہنچنا ہے ۔ انہوں نے شرکاء کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ایم ایل سی بننے کے بعد کم از کم ایک لاکھ مسلمانوں کو جو سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں لکھ پتی بناکر رہیں گے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا میرے جو منصوبے اور ویژن ہے وہ مسلمانوں کی ترقی ہے ۔ جناب عامر علی خاں نے یہ تلخ حقیقت بھی بیان کی کہ اوقافی جائیدادوں کو سب سے زیادہ اپنوں نے ہی لوٹا ہے اوقافی جائیدادیں اللہ کی ملکیت ہوتی ہیں ۔ انہوں نے پر زور انداز میں شرکاء کو بتایا کہ جن لوگوں نے اوقافی جائیدادوں کو ہڑپ لیا اور دنیا بنانے کی خاطر انہیں فروخت کیا آپ دیکھیں کہ ان کے گھر کے حالات خراب ہوتے ہیں اور وہ بے شمار مسائل کا شکار ہیں ۔ حالانکہ انسان کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کب تک بقید حیات رہے گا ۔ اگر انسان 63 سال کے بعد بھی زندہ رہتا ہے تو وہ اس کے لیے بونس ہے ۔ غرض انسان 22925 دن زندہ رہتا ہے پھر سے اپنے اعمال کا جواب تو دینا ہے ۔ جناب عامر علی خاں نے اپنے خطاب میں صلاح الدین ایوبیؒ اور اسپین کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اسپین میں اسلامی حکومت کے سقوط کے بعد مسلمانوں سے کہا گیا کہ آپ کو مالک مکان نہیں کرایہ دار بن کر رہنا پڑے گا اور پھر اس کے بعد کہا گیا کہ آپ کی مساجد ، مساجد نہیں رہیں گی آپ اپنے گھروں میں نمازیں ادا کرلیں اس کے بعد پھر تبدیلی کی گئی اور کہا گیا کہ بھائی آپ یہاں مسلمان بن کر نہیں رہ سکتے اگر آپ مسلمان رہنا چاہتے ہیں تو اسپین چھوڑ کر چلے جائیں ۔ آر ایس ایس اور اس کی قبیل کی تنظیموں کا ایجنڈہ بھی کچھ ایسا ہی ہے لیکن اگر مسلم دشمن طاقتیں اس خوش فہمی میں ہیں کہ وہ 20 کروڑ مسلمانان ہند کو دبا سکتی ہے تو وہ ان کی خام خیالی ہے وہ ہمیں بحرہ عرب میں ڈبا سکتے ہیں اور نہ ہی خلیج بنگال میں بہا سکتے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شہادت بابری مسجد کے ہندوستانی مسلمانوں میں ایک صحت مندانہ شعور بیدار ہوا ویسے بھی 1947 میں ہمارے پاس ایک امکان موجود تھا لیکن ہم اس سرزمین پر سوچ سمجھ کر ڈٹے رہے اس طرح مسلمان بائی چانس نہیں بائی چوائس ہندوستانی ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم 800 سال یہاں حکمرانی کرتے تھے ماضی میں سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا فیصد 42 ہوا کرتا تھا ۔ اب یہ گھٹ کر 2 فیصد ہوگیا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تعلیمی پسماندگی ہے ۔ آزادی کے تقریبا 77 سال میں مسلمانوں کی شرح خواندگی 68 فیصد ہے ۔۔