مساوات، مشکل اور تنوع

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

ہارورڈ کالج کا قیام 1636 میں عمل میں آیا اور یہ ہارورڈ یونیورسٹی کا ایک اہم تعلیمی مرکز ہے۔ گذشتہ چار صدیوں کے دوران بے شمار نئے اسکولس؍ کالجس شامل کئے گئے لیکن بارورڈ کالج نے یونیورسٹی کے تعلیمی اداروں میں جو قابل فخر مقام حاصل کیا ہے وہ کسی اور کالج کو حاصل نہ ہوسکا۔ ہارورڈ کالج کے باوقار اور غیر معمولی تعلیمی مرکز ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سال 2022 میں 60 ہزار طلبہ نے داخلوں کیلئے درخواستیں دی تھیں جن میں سے 2000 سے بھی کم طلبہ کو داخلے مل پائے جیسا کہ امریکی سپریم کورٹ نے نوٹ کیا ’’ ہارورڈ میں داخلہ کوئی آسان کام نہیں ہے یہ تو کارنامہ ہے۔ ہارورڈ میں داخلوں کا انحصار بہترین گریڈز، بااثر شخصیتوں کے سفارشی مکتوب یا پھر ہر قسم کی مشکلات پر قابو پانے پر ہوسکتا ہے، یہ آپ کے حسب نسب پر بھی ہوسکتا ہے‘‘۔
ماضی میں ہارورڈ کالج میں داخلوں کیلئے مقابلہ سفید فام امریکیوں اور سیاہ فام امریکیوں کے درمیان ہوا کرتا تھا، جب مجھے ہاورڈ بزنس میں داخلہ حاصل ہوا، اس وقت ہماری جماعت میں تقریباً 750 طلبہ تھے، کثیر تعداد میں سیاہ فام امریکی مٹھی بھر ایشیائی طلبہ ( چار ہندوستانی نژاد طلبہ ) اور چند آفریقی طلبہ ان میں شامل تھے لیکن امریکہ ڈرامائی طور پر بدل چکا ہے، اس باوقار کالج میں داخلہ کی جنگ صرف سیاہ فام امریکیوں اور سفید فام امریکیوں کے درمیان نہیں بلکہ یہ جنگ سفید فام، سیاہ فام، ایشیائی، ہسپانوی، آفریقی اور مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے درمیان ہورہی ہے۔ جہاں تک عدالتی جنگ کا سوال ہے تازہ ترین جنگ ہارورڈ کالج کے صدر اور فیلوز کے خلاف ’’اسٹوڈنٹس فار فیر اڈمیشن انکارپوریشن ‘‘ نے شروع کی جبکہ دوسرا مقدمہ یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کے خلاف تھا جو ایک اور قدیم یونیورسٹی ہے اور جہاں تک نارتھ کیرولینا یونیورسٹی میں داخلوں کا سوال ہے ایک عام سال میں اس یونیورسٹی کو داخلوںکیلئے 43500 درخواستیں موصول ہوتی ہیں جن میں سے 4200 طلبہ کو نئی کلاس میں داخلے دیئے جاتے ہیں۔مشکلات بمقابلہ مساوات : … دونوں صورتوں میں جو مرکزی مسئلہ تھا وہ یہ تھا کہ کیانسل ( ایک منفی عنصر) کو انتخاب کیلئے ایک متعلقہ معیار کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ اس مسئلہ نے امریکہ کو اس وقت سے پریشان کر رکھا ہے جب 4 جولائی 1776 میں 13 برطانوی نوآبادیات نے اپنی آزادی کا اعلان کردیا تھا چنانچہ یہی مسئلہ خانہ جنگی (1861-1865) کا باعث بنا۔ واضح رہے کہ نسل بمقابلہ مساوات کی دستوری طمانیت کے مسئلہ نے 1896 سے امریکی سپریم کورٹ کو مصروف رکھا ہے۔ اس مسئلہ کو امریکی آئین کی چودھویں ترمیم کیANVIL پر آزمایا گیا جس میں واضح طور پر لکھا ہے :’’ کوئی بھی ریاست ایسا قانون مدون نہیں کرے گی باالفاظ دیگر ایسا قانون نہیں بنائے گی یا نافذ نہیں کرے گی جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے شہریوں کے استحقاق یا استثنیٰ کو گھٹائے اور نہ ہی کوئی ریاست قانون کے مناسب عمل آوری؍ اطلاق کے بناء کسی شخص کو زندگی، آزادی یا جائیداد سے محروم کرے گی اور نہ ہی اس کے ان حقوق سے انکار کرے گی ، کسی بھی فرد کو اس کے دائرہ اختیار میں قوانین کا مساوی تحفظ حاصل ہے ‘‘۔
یہ بنیادی حقوق ہمارے ملک ہندوستان کے دستورکی دفعہ 14 اور 21 میں تقریباً لفظ با لفظ شامل کئے گئے تھے۔ چودھویں ترمیم کی تاریخ سفید فام اور سیاہ فام امریکیوں کے درمیان نسلی تعلیمات کی تاریخ اور اس کے ارتقاء کی عکاسی کرتی ہے۔ 1996 میں امریکی سپریم کورٹ نے علحدہ لیکن مساوات اور برادری کا نظریہ پیش کیا ، یہ 1954 میں براون بمقابلہ بورڈ آف ایجوکیشن میں اُلٹ گیا جس کا موقف تھا کہ ’’ علحدہ مساوی نہیں ہوسکتا ‘‘ ایسے میں نسلی امتیازی قوانین کو سخت تنقیع کا نشانہ بنایا گیا اور صرف اس وقت اس کے حق میں کھڑے رہنے کی اجازت دی گئی جب کسی سرکاری مفاد کی مجبوری ہو اور نسل کا استعمال بڑی تنگ ذہنی کے ساتھ کیا جارہا ہو اور بعد میں دو فیصلے ریجنٹس آف یونیورسٹی آف کیلیفورنیا بمقابلہ بکے (1978) اور گروٹر بمقابلہ لولنگر (2003) میں عدالت نے اس خیال کا اظہار کیا کہ تنوع اسٹوڈنٹس باڈی ریاستی مفاد کی مجبوری ہے جو یونیورسٹی کے داخلوں میں نسل کے استعمال کو جائز قرار دے سکتا ہے۔ عدالت نے بھی طلبہ کے انتخاب سے متعلق یونیورسٹیز کے فیصلہ کو موخر کردیا۔ 20 سال بعد قانون کا مذکورہ بیان یا فیصلہ اُلٹ دیا گیا۔ ستم ظریفی یہ رہی کہ یہ قانون اکثریتی سفید فام امریکیوں کی ایماء پر از سرِ نو تحریر نہیں کیا گیا بلکہ اسٹوڈنٹ باڈی کی ایماء پر رقم کیا گیا جس نے دیگر اقلیتوں کی نمائندگی کا دعویٰ کیا۔ خاص طور پر ایشیائی امریکی طلبہ کی نمائندگی کا اس نے دعویٰ کیا تھا۔
ریپبلکس بمقابلہ ڈیمو کریٹ : … ہارورڈ اور یو این سی کے مقدمات کا فیصلہ 3 کے مقابلہ اکثریتی 6 ججس نے کیا اور پھر ان پر قدامت پسند اور لبرل ( آزاد خیال ) ہونے کا لیبل چسپاں کیاگیا۔ چھ قدامت پسند ججس، چیف جسٹس ، جان رابرٹس اور جسٹس تھامس، الیٹو، گوروش، کوناو اوربریٹ کے تقررات ریپبلکن صدور نے کئے تھے جبکہ تین لبرل ججس، جسٹس سوتوپٹر، کاگن اور جیاکسن کے تقررات ڈیموکریٹک صدور کے ہاتھوں عمل میں لائے گئے تھے۔ دیکھا جائے تو یہ قدامت پسند بمقابلہ لبرل ججس ہے۔ دراصل یہ ریپبلکن کے مقرر کردہ بمقابلہ ڈیموکریٹ کے مقرر کردہ ججس ہیں۔ اسی طرح کی 6:3 اکثریت سے منصوبہ بند ولدیت بمقابلہ CASAY کیس میں امریکی سپریم کورٹ نے ROE بمقابلہ WADE (1973) فیصلہ کو اُلٹ دیا جس نے عورت کو اسقاط حمل کا حق دیا تھا اور اس حق کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے بعد جوPolls کروائے گئے ان میں 60 فیصد امریکیوں نے بتایا کہ CASAY مقدمہ میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے وہ انہیں پسند نہیں۔ ہارورڈ اور یو این سی کے مقدمات کا فیصلہ سیاسی ایگزیکیٹو پر ججس کو منتخب کرنے کا اختیار دینے کے خطرہ کو واضح کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک صدر جس کی پارٹی کا سنیٹ پر کنٹرول ہے کسی کو بھی اس وقت تک جج مقرر کرسکتا ہے وہ اس کی پارٹی کی آئیڈیالوجی کو مانتا ہو اور وہ صدر کی پارٹی کے نظریات سے متفق ہو۔ یہ دراصل آئین کے بنیادی اصول ، اس کی تاریخ اور اخلاقیات، ماضی کی مثالیں، رائے عامہ کا ارتقاء جیسے بنیادی اصولوں کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنا اور اس کے بارے میں غور و فکر سے گریز کرنا جیسا ہے۔یہ تمام چیزیں بھارت کیلئے ایک سبق ہے۔
سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججس کو منتخب کرنے کیلئے اگزیکیٹو ( وزیر اعظم ) کو بااختیار بنانے سے پہلے کی کالجیم پوزیشن پر واپسی، مذہبی خطوط پر خطرناک حد تک تقسیم ملک میں اور بھیانک ہوگی۔ کالجیم کیلئے خصوصی طور پر اختیار محفوظ رکھنا بھی اتنا ہی ناقابل قبول ہے اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ کالجیم کے 5 ججس کی ترجیحات اور رجحانات الگ الگ ہیں۔ایسا شاذونادر ہی ہوسکتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں غیر مستحق جج کا تقرر کیا گیا ہو لیکن ایسے بے شمار کیسس ہیں جنہیں نظرانداز کیا گیا یا پھر سفارشات کو نظرانداز کردیا گیا اور مسترد کردیا گیا ہو یا پھر جان بوجھ کر غیر معمولی طور پر تاخیر کی گئی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مساوات Desire Norm ہے اور مصیبت و مشکلات ایک تلخ حقیقت ہے۔ تنوع ایک ضرورت ہے ان تینوں کے درمیان توازن پیدا کرنے کیلئے ہمارے پاس اپنے ججس کا انتخاب کرنے کا طریقہ کار ہونا چاہیئے جو دستور کے بنیادی اصولوں کے تئیں وفادار ہوں۔