’’مسجدوں کی شہادت اور ہماری بے حسی‘‘

   

محمد عثمان شہید ، ایڈوکیٹ
آزادی کے 74 سال بعد ایک سیکولر اسٹیٹ میں مساجد کی شہادت اس امر کی غماز ہے کہ ہم بے حس ہوچکے ہیں۔ ہمیں حیرت نہیں کہ کسی مسلمان بھائی نے اپنی بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بیٹے کا نام ’’کرشنا‘‘ رکھ لیا لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ 4، 5 مساجد کی حال ہی میں شہادت کے بعد بھی ہم بے حس ہیں اور زمین جنبد، ملک جنبد نہ جنبد گل محمد کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ نعش کوئی ردعمل کا اظہار نہیں کرتی۔ زندہ قوم اپنے مذہب اور اس کے اصولوں پر مرمٹتی ہے اور ہم ہیں کہ موت کی نیند سو رہے ہیں۔ ہمارے قوائے عمل مضمحل ہوچکے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘ لیکن بے حسی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ وقت کی کئی ٹھوکروں کے باوجود بھی ہم بیدار نہیں ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر قوم ہم پر ٹوٹ پڑی اور شکاری کتوں کی طرح لوٹ کھسوٹ کررہی ہے۔

اب ملت کی کشتی کا کوئی ملاح نہیں ہے۔ یہ درخت بے یار ومددگار ہوچکا ہے۔ اس قافلے کا کوئی سالار نہیں، کوئی رہبر نہیں، کوئی سیاسی سرپرست نہیں، کوئی پورے خلوص کے ساتھ اس یتیم قوم کو سہارا دینے والا نہیں۔ اس سیاسی یتیمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملت اسلامیہ اندھیرے میں ٹھوکریں کھانے لگی اور ہر کسی نے اس قافلے کو لوٹ لیا رہزن نے رہبر کا لباس اوڑھ لیا اور ملت کا مقدر تاریکی کے سمندر میں ڈوب گیا۔
مسجد عنبرپیٹ یکخانہ سڑک کی کشادگی کی نظر ہوگئی۔ اس کے خلاف ملت کے مردہ جسم میں کوئی جنبش نہیں ہوئی نہ کوئی تحریک چلائی گئی نہ ہی کوئی موثر احتجاج کیا گیا۔ نہ ہی وقف بورڈ نے کوئی ٹھوس اقدام کیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ گرم پانی سے گھر نہیں جلتے جو بھی کارروائی کی گئی اشک شوی کے مترادف تھی۔ ووٹ کے بل بوتے پر سیاست کرنے والوں نے بدترین مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اس اہم مسئلہ پر خاموشی اختیار کی بے حسی کا مظاہرہ کیا، ملت کے نام نہاد ہمدرد بن کر ملت کے مفادات کو فراموش کردیا۔ جس سے اور مسجدوں کو توڑنے کا مخالفین کو موقع مل گیا۔ نئے سکریٹریٹ کی تعمیر کے عنوان پر دو اور مساجد پر انظامیہ کی تلوار چلی اور انہیں شہید کردیا گیا اور ان دو مسجدوں کی شہادت کے خلاف بھی مقامی جماعت نے ناقابل یقین رول ادا کیا۔
اب نارائن پیٹ کی طرف طاغوتی قوتوں نے رخ کرلیا۔ سڑک کی چوڑائی کے پیش نظر انہوں نے مسجد کی ایک ایکڑ اراضی پر واقع کمپاونڈ وال کو توڑ دیا ہے اور اب شاید سجد کی باری ہے اور یہ ہمارے ردعمل کا نتیجہ ہوگا اور قوم کا ردعمل یہ ہوگا کہ جو لوگوں کے بیانات اور روایتی احتجاج ۔ مسجد تو شہید ہوگی اور ایک کمزور قوم اور کیا کرسکتی ہے؟
موت سے ڈرنے والے آخرت کے عذاب کا خوف نہیں رکھنے والے دولت کی ہوس رکھنے والے وہم کے مریض تماشہ دیکھتے رہیں گے اور ہم ایک اور مسجد سے محروم ہو جائیں گے۔ افسوس تو یہی ہے کہ
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
یوں تو ملت کے بعض ہمدردوں نے ہمارے زخموں پر مرہم رکھاہے لیکن سیاسی طاقت کی بے حسی کی وجہ کوئی نتیجہ پر پہنچنے سے قاصر ہیں۔ سیاسی طاقتیں اپنے مفاد کے پیش نظر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جو اسلام کے اور قوم کے جذبات سے کھلواڑ ہے۔ یوں تو بعض علما نے قابل تحسین اور قابل تقلید انداز میں آواز اٹھائی لیکن اکثریت نے ان کا ساتھ دینے سے گریز کیا۔ ان کا یہ رویہ قابل مذمت ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خاص اللہ کی رضا کے لئے میدان میں آجائیں۔ متحدہ طور پر مسجدوں کے بچاؤ کے لئے آئندہ اقدام کریں اور ملت کے درد مندوں کا ساتھ دیں یہی سامان آخرت کے سرخروئی کا سامان ہوگا اور یہی ہمارے گناہوں کا کفارہ ثابت ہوگا۔ ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے۔ اب ظلمت کے اندھیروں کو دور کرنے کے لئے خورشید مبیں کی ضرورت ہے۔

اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
اسلام غریبوں کا مذہب ہے غریبوں نے اسلام کا پرچم بلند کیا۔ قربانیاں دیں۔ مشقیں برداشت کی اور ہر قسم کی تکلیف اٹھائی لیکن اسلام کا دامن نہیں چھوڑا اور انہی کی وجہ آج 56 اسلامی ممالک پر اسلامی پرچم لہرا رہا ہے۔
حضرت عمر فاروق ؓ خلیفہ دوم ایک لاکھ 40 ہزار مربع میل پر اسلام کا پرچم بلند کرنے والے فاتح بیت المقدس جب بیت المقدس میں داخل ہوئے تو ان کے جسم پر جو کرتا تھا اس پر 66 پیوند لگے تھے۔ حضرت سعید بن عامر ؓ ریاست حمس کے گورنر مقرر ہوئے تو ان کے گھر 3، 3 دن تک چولہا نہیں جلتا تھا اور ریاست کے غریبوں کی فہرست جب خلیفۃ المسلمین حضرت عمر ؓ کے سامنے پیش کی گئی تو ان کا نام سرفہرست تھا۔ ایسے ہی افراد نے اسلام کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچایا۔ ہم کو بھی چاہئے کہ ہمارے اپنے مسائل کے قطع نظر اسلام کو دل سے قبول کرلیں اور اس پر عمل پیرا ہو جائیں۔ مسلم پرسنل بورڈ اور دوسری تحریکوں نے صحیح طریقے پر احتجاج کرنے کا فیصلہ لیا۔ امت مسلمہ کو بھی چاہئے کہ ان کا بھرپور ساتھ دیں اور اپنی یکجہتی کا مظاہرہ کریں ایسا ہی طریقہ کار کامیابی کا ضامن ہوگا۔
ویسے بھی کسی مذہب کی عبادت گاہوں کو توڑنا دل شکنی ہے کیوں کہ ایسا فعل مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ لیکن کے سی آر کو کون سمجھائے، افسوس تو ہم کو اپنوں پر ہے جنہوں نے ساتھ رہ کر ہمت افزائی کی۔ اگر صحیح اسلام کی روح سے واقف کروایا جاتا تو شاید مسجدیں برقرار رہتی اور سکریٹ کی تعمیر بھی مکمل ہوتی۔ امن بھی برقرار رہتا۔اس کی بہترین مثال بحرین کی حکومت نے قائم کی۔ جب ایک عربی عورت نے اسٹور میں گنیش کی مورتیوں کو توڑ دیا کیونکہ وہ ایک اسلامی ملک میں ہے تو اس کو غیر قانونی تصور کیا گیا اور اس کی مذمت کی گئی اس خاتون پر مقدمہ بھی دائر کیا گیا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم پر رحم کرے اور مسلمانوں کو نیک ہدایت اور توفیق دے (آمین)